اسلام آباد(آئی این پی)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم میں انکشاف کیا گیا کہ ایل این جی کو چھوڑ کر فرنس آئل سے60فیصد مہنگی بجلی پیدا کی جا رہی ہے، پٹرولیم ڈویژن حکان نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ ایل این جی سے سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے لیکن دانستہ طور پربجلی بنانے کیلئے فرنس آئل کو ترجیح دی جا رہی ہے، پورٹ قاسم ٹرمینل پر9ماہ میں ایل این جی کے 30کارگواتارے گئے ،
ٹرمینل54فیصد صلاحیت پر چلا جا رہا ہے جس سے نقصانات ہو وہے ہیں، ایل این جی کے کل7کنٹریکٹ جاری کئے ہیں جن میں سے 2آپریشنل ہیں جبکہ باقی5ٹرمینلز کی تعمیر ہو رہی ہے،پی ایس او کی قابل وصول رقم242ارب جبکہ واجب الادا رقم200ارب روپے ہے، کمیٹی ارکان نے کہا کہایل این جی پلانٹ پوری استعداد پر نہیں چلانا تھاتو اربوں ڈالر اس منصوبے پر کیوں لگائے گئے،پٹرول کی ترسیل کیلئے صرف ان ٹینکرز کا استعمال کیا جائے جو این ایچ اے کے معیار پر پوری اترتے ہیں۔ اس کی خلاف ورزی کر نے والوں کو بھاری جرمانے کیے جائیں اور کاروائی بھی کی جائے،کمیٹی نے ایل این جی ٹرمینل کو پوری استعداد پر نہ چلانے کی تحقیقات کرانے کی سفارش کر دی۔پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کا اجلام سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر اعظم موسیٰ خیل، سینیٹر شمیم آفریدی، سینیٹر جہانزیب جمالدینی ، سینیٹر بہرا مند خان تنگی، ایڈیشنل سیکرٹری پٹرولیم ڈویژن اور متعلقہ محکموں کے حکام نے شرکت کی۔ایم ڈی پی ایل ایل عدنان گیلانی نے کمیٹی کو پورٹ قاسم پاور پلانٹ پت بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پورٹ قاسم پر دوسرا ایل این جی ٹرمینل قائم کیا گیا ہے جس نے4جنوری میں کام کرنا شروع کیا۔ٹرمینل600ایم ایم سی ایف ڈی ایل این جی ہینڈل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔9ماہ میں ٹرمینل پر 30کارگواتارے گئے جبکہ کپیسیٹی چارجز کی مد میں ہر ماہ7.5ملین ڈالرز ادا کیے جاتے ہیں۔
اس ٹرمینل پر ایل این جی منغوانے سے ملک کو ہر مال700ملین ڈالر کا منافع ہوتا ہے۔پلانٹ کی تکمیل میں تاخیر ہوئی جس پر پی جی پی سی ایل کو 51ملین ڈالر کا جرمانہ کیا ہے جو ابھی انہوں نے ادا نہیں کیا۔ ایل این جی ٹرمینل ابھی تک صرف54فیصد صلاحیت پر چلایا جا رہا ہے لیکن اگر وزارت توانائی کہے تو اس کو 100فیصد صلاحیت پر چلا سکتے ہیں۔ ایل این جی سے سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے لیکن ایل این جی کو چھوڑ کرپاور پلانٹ فرنس آئل پر چلائے جارہے ہیں اور60فیصد مہنگی بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔
کمیٹی ارکان نے کہا کہ دو سال گزرنے کے بعد بھی ایل این جی ٹرمینل پوری صلاحیت پر نہیں چلایا جا رہا ۔ اگر ضرورت نہیں تھی تو اربوں ڈالر اس منصوبے پر کیوں لگائے گئے۔کمیٹی نے ایل این جی ٹرمینل کو پوری استعداد پر نہ چلانے کی تحقیقات کرانے کی سفارش کر دی۔کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ ایل این جی کے کل7کنٹریکٹ جاری کئے ہیں جن میں سے 2آپریشنل ہیں جبکہ باقی5ٹرمینلز کی تعمیر ہو رہی ہے۔ اگر وزارت پٹرولیم مطالبہ کرے تو پورٹ قاسم ایل این جی پلانٹ کوپوری استعداد پر چلا کر سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔
پی ایس او حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پی ایس او پاکستان کے منافع بخش ترین اداروں میں سے ایک ہے۔ 2018میں پی ایس او کا منافع15.46ارب روپے ہے تھا جبکہ سالانہ آمدنی ایک کھرب سے زائد رہی۔پی ایس او کی قابل وصول رقم242ارب جبکہ واجب الادا رقم200ارب روپے ہے۔کمیٹی ارکان نے کہا کہ مارکیٹ میں اندر پی ایس او کی مصنوعات90فیصد سے زیادہ جعلی ملتی ہیں جس کی پی ایس او تحقیقات کرے۔ پی ایس او کے اندر 2004سے افراد کے خلاف محکمانہ کاروائیاں جاری ہیں جن کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔پٹرول کی ترسیل کیلئے صرف ان ٹینکرز کا استعمال کیا جائے جو این ایچ اے کے معیار پر پوری اترتے ہیں۔ اس کی خلاف ورزی کرے والوں کو بھاری جرمانے کیے جائیں اور کاروائی بھی کی جائے۔