اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی انصار عباسی اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلنے والے مقدمے کو اُس وقت تک کے لیے معطل کر دیا گیا ہے جب تک علوی صاحب اس عہدے پر براجمان رہیں گے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ چونکہ آئینِ پاکستان میں صدرِ مملکت کو ایسی کسی بھی عدالتی کارروائی
سے استثنا حاصل ہے، اس لیے علوی صاحب کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ عدالت میں نہیں چل سکتا، اس لئے اسے معطل کیا جا رہا ہے۔ جب کچھ ایسا ہی معاملہ پیپلز پارٹی دور کے صدر آصف علی زرداری کو کرپشن کے مقدمات میں پیش تھا اور اُن کے آئینی استثنا کی بات کی جاتی تھی تو تحریک انصاف سمیت دوسری سیاسی جماعتیں، میڈیا اور سول سوسائٹی اس پر سخت اعتراض کرتے رہے۔ یہ بحث کی جاتی تھی کہ جب خلفائے راشدینؓ عدالتوں کے سامنے پیش ہوتے رہے تو کسی ایسے استثنا کی یہاں کیسے گنجائش ہو سکتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ استثنا سے متعلق آئینی شقیں اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ انصاف کے تقاضوں کے بھی منافی ہیں۔ ڈاکٹر علوی کی جماعت جو اب حکمران پارٹی ہے، اس نقطۂ نظر (جسے میں بھی درست سمجھتا ہوں) میں پیش پیش تھی لیکن آج صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اپنے ٹویٹر اکائونٹ سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ نہ تو وہ یہ استثنا چاہتے تھے اور نہ ہی اُنہوں نے عدالت سے کوئی رعایت طلب کی لیکن عدالت اُس آئینی شق کی پابند ہے جو کہتی ہے کہ کوئی بھی فوجداری مقدمہ صدر یا گورنر کے خلاف اُن کے مدتِ عہدہ کے دوران نہ تو قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی چلایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ صدر صاحب نے بعد ازاں ایک ٹویٹ میں یہ بات بھی کہی کہ وہ اپنے وکیل کو کہیں گے کہ عدالت سے استثنا کے خاتمے کی بات کریں۔ اس صورتحال اور
صدر علوی کے جواب پر ایک صحافی نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک مولوی صاحب چوری کے خلاف لیکچر دینے کے بعد ایک دعوت پر پہنچے۔ میزبان مولوی صاحب کی تقریر سن چکا تھا۔ مولوی صاحب نے جب قورمہ کی جانب ہاتھ بڑھایا تو میزبان بولا: مرغی چوری کی ہے۔ مولوی صاحب نے جواب دیا: شوربہ حلال ہے۔ شوربہ ڈالتے ڈالتے بوٹیاں لڑھک کر مولوی صاحب کی پلیٹ میں آ گئیں،
میزبان بوٹیاں پلیٹ سے نکالنے لگا تو مولوی صاحب کہنے لگے: پلیٹ میں خود سے آنے والی بوٹی حرام نہیں۔ گویا کل تک جو صدارتی استثنا دوسروں کے لیے حرام تھا، وہ آج تحریک انصاف کے صدر کے لیے حلال ہو چکا۔ امید تو یہ تھی کہ صدر صاحب اس معاملہ کو حکومت، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے اس مطالبہ کے ساتھ اُٹھاتے کہ ایک اسلامی ملک میں ایسے کسی استثنا کی کوئی گنجائش نہیں۔
اور پھر ایسے صدرِ پاکستان کہ جنہوں نے پارلیمنٹ میں اپنے حالیہ خطاب میں تحریک انصاف کے اس وعدہ کو دہرایا کہ اُن کی حکومت ریاستِ مدینہ کی عظیم مثال کو سامنے رکھ کر پاکستان میں تبدیلی لائے گی لیکن جب عمل کا وقت آیا تو علوی صاحب کو اُس آئینی شق کے تقدس کا خیال آ گیا جو کل تک بُری اور ناقابل برداشت تھی۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدرِ مملکت کا ایک اور ٹویٹ دیکھا تو
حیرانی ہوئی کہ صدر صاحب کر کیا رہے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ میں نے فلم ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘ دیکھی، جسے دیکھ کر خوشی ہوئی کہ پاکستانی سینما اچھی تفریح فراہم کر رہا ہے۔ صدر صاحب سے گزارش ہے کہ اپنے منصب کا خیال رکھیں، اُس تقریر کو بھی دوبارہ پڑھ لیں جو انہوں نے پارلیمنٹ میں کی تھی اور جس میں صدر صاحب نے خود ریاستِ مدینہ کو ماڈل کے طور پر پیش کیا تھا۔ نیز اگر مناسب سمجھیں تو اپنا یہ ٹویٹ ڈیلیٹ (delete) کر دیں۔