اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈڈوچہ ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس میں فوری طور پر پنجاب کی کابینہ سے ڈیم کی منظوری لینے کی ہدایت کر دی۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس عطا عمر بندیال پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ڈڈوچہ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے از خود نوٹس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں آبی وسائل تعمیر کرنے ہیں جس کے لیے ہم ایک ایک ڈیم تعمیر کر کے دیں گے اوراس کے لیے زیادہ وقت نہیں دیں گے کیوں کہ پہلے ہی معاملے میں تاخیر کی گئی ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں ڈیمز بنانے ہیں جن کی تعمیر میں بیوروکریسی کے معاملات کو رکاوٹ نہیں بننے دیں گے، ڈڈوچہ ڈیم کی تعمیر میں کس نے رکاوٹ ڈالی ٗذمہ داران کا تعین کیا جائے۔اس پر بحریہ ٹاؤن کے وکیل اعتزاز احسن نے عدالت کو بتایا کہ بحریہ ٹاؤن ایک سال میں ڈیم بنا کر دینے پر راضی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک ریاض اور بحریہ کو چھوڑ دیں لیکن پانی کی اہمیت کو مدنظر رکھیں ۔سماعت کے دوران سیکریٹری آب پاشی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ یہ ڈیم پنڈی کو پانی فراہم کرنے کے لیے بنایا جانا ہے اوراس کا معاملہ محکمہ آب پاشی پنجاب نے ٹیک اوور کر لیا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت میں کون ہے ہمیں اس سے غرض نہیں، 27 اگست 2015 کا آرڈر ہے لیکن ابھی تک ڈیم تعمیر نہیں ہوا، ان تین سالوں میں ایک ایک دن کا حساب لیں گے، پانی فراہم نہ کرنا ایک سازش ہے اور آبی وسائل میں رکاوٹ ڈالنے والے اس سازش میں برابر کے شریک ہیں جس پر اعتزاز احسن نے بتایاکہ ڈیم کی جگہ انہوں نے پْل بنا دیا ہے اب ڈیم بنا تو پْل ضائع ہو جائے گا،جسٹس عمر عطا بندیا ل نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن اپنے لئے بھی ڈیم بنانا چاہتا ہے۔
ا س پر چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ اگر بحریہ ٹاؤن ایک سال میں ڈیم بنا کر دینا چاہتا ہے تو رکاوٹیں کیوں ہیں جو بھی آبی ذخائر بنا کر دینا چاہتا ہے اسے بنانے دیں اس سلسلے میں پنجاب حکومت کی مختص رقم تو کمیشن میں چلی جائے گی۔اس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ ہمیں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر اعتراض نہیں ہے اس ڈیم کی تعمیر پر 6 ارب درکار ہیں ا ور اس کی گنجائش ڈھائی کروڑ گیلن فی دن ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پانی کے شیئر کا معاملہ اب سپریم کورٹ طے کر لے گی۔
یہ معاملہ ہماری زندگی کا ہے اس سلسلے میں افسران کے کھانچوں اور کمیشن کے مارے جانے کا خطرہ ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آنے والے 30 سالوں میں پاکستان کو پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل نے تجویز پیش کی کہ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ کابینہ میں پیش کیا جانا چاہیے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ اچھی تجویز ہے آپ کو آبی وسائل تعمیر کرنے چاہئیں۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کابینہ سے اگر کوئی منظوری لینی ہے تو لے کر بتائیں ۔
کابینہ کا فوری اجلاس بلا کر اس معاملے کو دیکھیں ٗپانی کا معاملہ ایک جنگ ہے اور ہم جنگی بنیادوں پر کام کریں گے، ابھی دن رات کام کرنے کا کہہ رہے ہیں لیکن افسوس 40 سال تک تو کچھ نہیں کیا۔اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال کا سیکریٹری آبپاشی سے مکالمہ ہوا جس میں جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ آپ کے صوبے میں کنال لنکنگ کا کیا پروگرام ہے؟ کنال لنکنگ کو پرائیویٹائز کریں اور بتائیں کہ صوبہ پنجاب کا کل کتنا لگان ہے؟جس پر سیکرٹری آب پاشی نے بتایا کہ 2 ارب روپے کا لگان ہے ۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیاکہ ریکور کتنا ہوتا ہے یہ بتائیں؟سیکریٹری آبپاشی نے جواب دیا کہ 10 لاکھ روپے ریکور ہونے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ باقی تو نمبردار کھا جاتے ہیں یہ نمبرداری ختم کریں دس دس ایکڑ نمبرداری کے لئے دیے ہوئے ہیں، ہم پورے پاکستان میں ڈیمز کی تفصیلات طلب کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ عدالت کو بتایا جائے کہ کتنے ڈیمز زیر تعمیر ہیں اور کتنے تجویز کردہ ہیں پہلے ہی ڈیمز کی تعمیر میں تاخیر کی وجہ سے اضافی خرچ بڑھ گیا ہے۔
نیلم جہلم میں 9 سال کی تاخیر کی وجہ سے 50 فیصد لاگت بڑھ گئی، گولن گول کی لاگت 7 ارب روپے بڑھ گئی ہے اور تاخیر 8سال ہے، نائن جنگ ڈیم کی لاگت 17 ارب بڑھ گئی جبکہ تین سال تاخیر ہے، کلیار ڈیم کی لاگت 26 فیصد بڑھ گئی ہے اور تاخیر 5 سے 7 سال ہے۔وقفے کے بعد ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے محکمہ آب پاشی پنجاب کے سیکریٹری کو ڈیم کی تعمیر سے متعلق مشاورت کے لئے بدھ تک مہلت دی اور ہدایت کی کہ تمام متعلقہ محکموں کے ساتھ مل بیٹھ کر عدالت کو آگاہ کریں۔بعدازاں عدالت نے سیکریٹری آبپاشی کو مشاورت کے لئے مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کر دی۔