اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)عمران خان کی جانب سے پنجاب کے وزیراعلیٰ کیلئے نامزد عثمان بزدار کے دیت دیکر قتل کیس میں بری ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔ نجی ٹی وی’’دنیا نیوز‘‘کے مطابق عثمان بزدار پر 1998میں قتل کا مقدمہ درج ہوا تھا اور 2000میں عثمان بزدار دیت دیکر قتل کیس سے بری ہوئے تھے جبکہ ان کے ساتھ نامزد ساتھیوں کو عدالت نے مجرم ٹھہرایا تھا
جبکہ مقدمے میں ان کے والد بھی نامزد تھے۔ واضح رہے کہ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ اچھی شہرت کے حامل نوجوان ایم پی اے کو وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کرینگے ۔ اس سے قبل یہ انکشاف بھی سامنے آچکا ہے کہ عثمان بزدار کے خلاف نیب میں بھی انکوائری چل رہی ہے۔ نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی سلمان غنی کا کہنا تھاکہ عمران خان نے سردار عثمان بزدار کو نامزد کر کے بلاشبہ ایک سرپرائز دیا ہے اور گزشتہ 24گھنٹے کے دوران ہی ان کا نام فائنل کیا گیا ہے۔ معروف صحافی کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ان کی نامزدگی کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تعلق جس علاقے سے وہاں پانی اور بجلی نہیں اور ان کا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے ہے تاہم ان کے خلاف نیب میں انکوائری چل رہی ہے ۔ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب احمد مصطفیٰ باجوہ نے ان کے خلاف انکوائری کی منظوری دے رکھی ہے اور ان کے تفتیشی افسر حیدر نواز ہیں۔ عثمان بزدار پر واٹر سپلائی سکیموں اور سیوریج کے منصوبوں کے حوالے سے ان پر الزامات ہیں جن کے تحت انکوائری چل رہی ہے۔ سلمان غنی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے عوام کی توقعات بہت تھیں کیونکہ عمران خان نے کہا تھا کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ اس کو بنائیں گے جو پڑھا لکھا اور اچھی شہرت کا حامل ہو گا۔ ہم نے اس حوالے سے سارا پنجاب کھنگال مارا اور اس حوالے سے ہمیں یہ پتہ چلا کہ بہت سے ایسے
نوجوان تحریک انصاف کے اندر موجود تھے جنہیں پنجاب کا چیف منسٹر بنایا جا سکتا تھا۔ میرے خیال سے عمران خان کو مس گائیڈ کیا گیا ہے کیونکہ ان کے خلاف نیب کے اندر تحقیقات چل رہی ہے اور اس نامزدگی کے بعد خود تحریک انصاف کے اندر مایوسی پیدا ہو گی کیونکہ ان کی نامزدگی کے بعد ڈیرہ غازی سے تین ایم پی ایز جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے انہوں نے بھی اس بات کی
تائید کی ہے کہ ان کے خلاف نیب کی تحقیقات ہو رہی تھیں ۔ اس موقع پر معروف صحافی و تجزیہ کار اور پروگرام کے میزبان کامران خان کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار کا تحریک انصاف کے حوالے سے کوئی خاص پس منظر بھی نہیں، 2002سے لیکر 2008تک یہ ق لیگ کا حصہ تھے اور 2013میں یہ ن لیگ کا حصہ بنے اور گزشتہ 4پانچ سال کے دوران ہی یہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں۔
سلمان غنی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ عمران خان کا پلس پوائنٹ یہ تھا اور خاص طور پر پختونخوامیں دیکھنے میں آیا کہ ان کے نظرئیے کو فتح ملی اور ان کی ترجیح پارٹی میں وہ نوجوان رہے جو اچھی شہرت کے حامل تھے، جنہوں نے جدوجہد کی تھی۔ میرے خیال میں عمران خان سے جو توقع پنجاب کے حوالے سے کی جا رہی تھی شاید اس سے مایوسی پیدا ہو اور یہ بھی لگتا ہے کہ عثمان بزدار کیونکہ زیادہ مقبول نہیں ، نہ ہی پارٹی کے اندر اور نہ ہی میڈیا کے لوگ بھی انہیں نہیں جانتے تھے ۔ لگتا یہ ہے کہ یہ بظاہر وزیراعلیٰ ہونگے ، لیکن پارٹی نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے سینئر وزیر کے طور پر علیم خان کو سامنے لایا جائے گا۔