اسلام آباد (سی پی پی)نئی حکومت سے قبل بیوروکریٹس بیل آؤٹ پیکیج بالخصوص پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک)کے قرض کی ادائیگی کی تفصیلات کے حوالے سے کام کرنے میں مصروف ہیں۔نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بیورو کریٹس کی جانب سے تیار ہونے والے خاکے سے 2018 سے 2023 تک زرمبادلہ کے لیے اقدامات کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر 47 ارب ڈالر کا معاہدہ ہوا تھا جس میں سے مسلم لیگ(ن)کی حکومت کے اختتام تک 22 ارب ڈالر کے منصوبے کے معاہدوں کی تکمیل ہوچکی ہے۔توانائی سیکٹر میں 12 ارب 25 کروڑ ڈالر کے منصوبے کے معاہدے مکمل ہوچکے ہیں، جبکہ 11 ارب 34 کروڑ ڈالر کے منصوبوں کے معاہدوں کی تکمیل اب تک نہیں ہوئی۔توانائی شعبے میں ہی 6 منصوبے فعال ہو چکے ہیں اور ان سے بجلی کی پیدوار بھی شروع ہوگئی ہے جس کے باعث پاکستان پر ان منصوبوں کی ادائیگی واجب الادا ہوچکی ہے جو رواں مالی سال ادا کی جائے گی۔اب تک پن بجلی کے تین، کوئلے کے 2 اور شمسی توانائی کے ایک منصوبے سے 3 ہزار 8 سو 39 میگا واٹ بجلی کی پیداوار جاری ہے۔تاہم ان منصوبوں سمیت دیگر منصوبوں کی ادائیگی 25 سے 30 سال کے عرصے پر محیط ہے، جس کی اقساط ایک سال میں 2 مرتبہ ادا کی جائے گی، تاہم تخمینہ لگایا گیا ہے کہ سی پیک کے منصوبے کے ششماہی قسط 7 کروڑ 15 لاکھ ڈالر ادا تک ہو سکتی ہے۔وزیرِ اعظم سیکریٹریٹ میں موجود ذرائع نے بتایا کہ رقوم کی ادائیگی چینی کرنسی میں بھی کی جاسکتی ہے، تاہم منصوبوں کی ادائیگی تب شروع ہوگی جب منصوبے مکمل طور پر فعال ہوجائیں گے۔
ذرائع نے بتایا کہ سڑکوں، ریلوے، ماس ٹرانزٹ، پی ایس ڈی پی یا ایس پی ای سی اور گوادر کا کوئی بھی منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے۔پہلے سے قرض لی ہوئی رقم کی ادائیگی کے متبادل منصوبے کے طور پر نئی حکومت کو متعدد تجاویز پیش کی جائیں گی۔واضح رہے کہ سی پیک منصوبے کے لیے چینی قرض کی ادائیگی کا مسئلہ اس وقت منظر عام پر آیا جب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان عالمی ادارے کے بیل آٹ پیکیج کی مدد سے بھاری چینی قرضوں کو ادا کرے گا