منگل‬‮ ، 24 دسمبر‬‮ 2024 

نگرا ن حکو مت نے پانی کے بحران کے حل کے لئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر سمیت 10تجاویز پیش کر دیں،سابق حکومتوں کی سنگین غفلت سے پردہ اُٹھادیا

datetime 6  اگست‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آئی این پی ) نگران وفاقی وزیر برائے آبی وسائل علی ظفر نے پانی کے بحران کے حل کے لئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر سمیت 10تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالا باغ ڈیم بہت ضروری تھا اس پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا، ہوسکتا ہے کہ کالا باغ ڈیم پر غلط فہمی پیدا کرنے میں غیر ملکی عناصر کا ہاتھ ہو لیکن جہاں ہم کالا باغ ڈیم نہیں بنا سکے وہاں باقی ڈیم کیو ں نہیں بنے؟،ڈیموں کے نتائج 25سال بعد میں نظر آتے ہیں،

ڈیم نہ بننا آنے والی حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہے،کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور پھر اس کو شروع کیا جائے، آر ٹی ایس کی تحقیقات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا خط ہمیں موصول نہیں ہوا ، ابھی تک صرف ہم نے خط کے بارے میں سنا ہے ، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے ہم نے 9پوائنٹ بنائے ہیں ان پر عمل کیا جائے تو اگلے پانچ سالوں میں ہم کافی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔پیر کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نگران وفاقی وزیر برائے آبی وسائل علی ظفر نے کہا کہ ہمیں دنیا نے پانی کی قلت والا ملک قرار دیا ہے، انہوں نے کہا کہ 2مہینے میں ہم نے پانی کے بحران کے حوالے بڑا غور فکر کیا ہے کیا وجہ ہے کہ ہم اس حال میں پہنچیں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا پانی اوپر والے ملکوں سے ہوکر آتا ہے ، 1960میں بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کیا گیا ہے معاہدے کے تحت ہمارے 3مشترقی دریا بھارت کو دے دیئے گئے جبکہ 3دریا چناب ، جہلم اور سندھ کے پانی پر پاکستان کا حق ہے۔ بھار ت نے تو اپنے ڈیم بنا لیے جبکہ پاکستان نے بھی ڈیم بنانے تھے, 7سے 8ڈیم بنانے کا منصوبہ تھا جس میں کالاباغ بھی شامل تھا ۔جبکہ 4سو تک دوسرے منصوبے شامل تھے لیکن بدقسمتی سے ہم نے سندھ طاس معاہدے کے تحت صرف دو ڈیم منگلا اور تربیلا بنائے ۔ دونوں کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 15ملین ایکٹر فٹ تھی جس اس وقت صرف 13ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے۔ ہم 138ملین ایکٹر فٹ پانی میں سے صرف 13ملین ایکٹر فٹ پانی ذخیرہ کررہے ہیں باقی پانی سمندر میں ضائع ہوجاتا ہے۔

کالا باغ ڈیم بہت ضروری تھا اور بننا چاہیے اس پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ ہوسکتا ہے کہ کالا باغ ڈیم پر غلط فہمی پیدا کرنے میں غیر ملکی عناصر کا بھی ہاتھ ہو لیکن جہاں ہم کالا باغ ڈیم نہیں بنا سکے وہاں باقی ڈیم کیو ں نہیں بنے ۔ ڈیموں کے نتائج 25سال بعد میں نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈیم نہ بننا آنے والی حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہے۔ ہمارا 90سے 95فیصد پانی زراعت کیلئے استعمال ہوتا ہے جبکہ پانی کو نہروں کے ذریعے پہنچانے کا طریقہ ہے۔ نہروں سے 48فیصد پانی ضائع ہوجاتا ہے اگر نہروں کی لائننگ کردیں تو پانی بچا سکتے ہیں۔ نہروں کی لائننگ کی طرف توجہ نہیں دی گئی ۔

انہوں نے کہا کہ ہم پینے والا پانی سیوریج کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ پانی کیلئے ترقیاتی بجٹ سے صرف 3سے 7فیصد مختص کیا جاتا ہے جو ہمیں تبدیل کرنا پڑے گا۔ پانی کیلئے بجٹ کو 20سے 30فیصد کرنا پڑا گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشن گنگا ڈیم بنا لیا، اور اب وہ انتظار کررہیے ہیں کہ باقی ڈیم بھی بنا ئیں۔ انہوں نے کہا کہ پانی کے بحران کے حل کیلئے ہم نے 10تجاویز مرتب کیں ہیں ۔ کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور پھر اس کو شروع کیا جائے۔ یہ بہت ضروری ہے۔

دیامر بھاشہ ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر بھی شروع کی جائے اس کیلئے فنڈز کا انتظام پاکستان کو خود ہی کرنا ہوگا پھر بجلی کیلئے کمرشل قرضے لے سکتے ہیں۔ چھوٹے ڈیموں اور پانی کے ذخائر پر کام شروع کیا جائے۔ پانی کیلئے بجٹ کم ازکم 20فیصد تک لے جایا جائے۔ نہروں کی لائننگ بھی کی جائے۔ جدید کاشتکاری کیلئے کسانوں کو تعلیم دی جائے، ٹیوب ویلوں کی ریگولیشن کی جائے، صوبوں کے پانی کے استعمال کے تعین کیلئے آلات نصب کرنے کا کام مکمل کیا جائے ، پینے کے پانی اور سیوریج کے پانی کو الگ کرنے کیلئے سسٹم لگائے جائیں ،

بارشی پانی ذخیرہ کرنا چاہیے۔ ایک سوال کے جواب پر انہوں نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کو واپس کرنا ممکن نہیں ، معاہدے کو چینلنج کرنا ہمارے حق اور فائدے میں نہیں ہے۔ کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ تعلیم دی جائے کہ قومی مفاد کیلئے یہ ضروری ہے اتفاق رائے پیدا کرنا ایک چیلنج ہے اب وقت آگیا ہے کہ اس چیلنج کو قبول کرنا چاہیے ، یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے اس کو حل کرنا چاہیے ۔ وزیراعظم کے حلف کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ 15اگست تک ہوئے جائے گا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد پارلیمنٹ کا اجلاس بلا سکتے ہیں۔ اسمبلی کی حلف برداری کیلئے 15اگست سے آگے نہیں جاسکتے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے آرٹی ایس کی تحقیقات کیلئے لکھے گئے خط کے حوالے سے سوال جواب میں علی ظفر نے کہا کہ ہمیں ابھی تک وہ خط موصول نہیں ہوا ابھی تک تو خط کے بارے میں سنا ہے اگر الیکشن کمیشن قانون کے تحت ہدایت دیتا ہیں ہم کمیشن بنا لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ کی بہت سی وجوہات ہیں اور وہ مسائل 2مہینے میں حل نہیں ہوسکتے ، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے ہم نے 9پوائنٹ بنائے ہیں ان پر عمل کیا جائے تو اگلے پانچ سالوں میں ہم کافی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…