اسلا م آباد (نیوز ڈیسک)پورے با رہ سال بعد سلمان خان کے خلا ف چلنے والے تا ریخی ہٹ اینڈ رن کیس میں ممنئی کی ایک ذیلی عدالت میں آج فیصلہ سنا یا گیا ، انڈین پینل کو رٹ کی مختلف دفعات (۲۰۳،۹۷۲،۷۳۳،۸۳۳اور۷۲۴)کے تحت مسڑ خان کو مجرم قرار دیا گیا اور انھیں پا نچ سال قید کی سزا دی گئی ، جبکہ پچیس ہزا روپے جر مانہ بھی عا ئد کیا با لی ووڈ کے مسٹر دبنگ خان کے جیل رسید ہو نے کی خبر آنا فانا ہند و ستا نی ہی نہیں بین الا قوامی میڈیا میں بھی گر دش کر نے لگی اور ہر چہار جا نب سے اس فلم اسٹا ر کے لیے تسلی اور دلا سے کے کلمار کہے جا نے لگے ، ان کے گھر والو ں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ نا انصا فی ہو ئی ہے حا لا ں کہ پو رے با رہ سا ل تک چلنے وا لے اس کیس میں استغا ثہ کی طرف سے کم از کم ۷۲چشم دید گوا ہ پیش کیے گئے ۔
جبکہ دفا ع نے صر ف سلمان خان کے ڈروائیور کو بطور گوا ہ کے پیش کیا ور یہ بھی مشکو ک ہی رہا کیس میں سلمان خان پر الزا م لگا یا گیا تھا کہ ۸۲ستمبر ۲۰۰۲کی رات کو با ند رہ میں وا قع امریکن ایکسپر یس بیکری کے با ہر فٹ پا تھ پر سو ر ہے لو گو ں پر اپنی لینڈ کر وز رکا ر چڑھا دی تھی جس کے نتیجے میں ایک آدمی کی مو ت ہو گئی اور دیگر پا نچ لو گ شدیدطور پر زخمی ہو ئے تھے با لی ووڈ کے سپر اسٹا ر کی طرف سے یہ کہا گیا کہ و ہ نہ تو شرا ب پیے ہو ئے تھے اور نہ ہی وہ اپنی کار ڈرئیوار کر ہے تھے بلکہ کار ان کا ڈرائیور ہی چلا رہا تھا با ت قا نو ن کو دھو ل جھو نکنے والی تھی جس میں مسٹر خان کا میار ب نہیں ہو پا ئے اور قا نو ن کے لمبے ہا تھ کی گر فت سے بچ نہ سکے ۔ سب میں ہیں کہ اتنے بڑے اسٹا ر کو کیسے جیل ہو گئی حا لاں کہ یہ کو ئی نئی با ت بھی نہیں ہے اس سے پہلے بھی بہت سا رے فلم اسٹا ر جیل کی ہو ا کھا تے رہے ہیں اور سنجے دت تو ابھی بھی لمبی سزا جھیل رہے ہیں خو د سلمان خان بھی آئے دن کیہں نہ کہیں کسی نہ کسی اُلجھنے کے شکا ر ہو تے ہیں رہتے ہیں کا لے ہر ن کے شکا ر کا معا ملہ بھی ان ہی کے سا تھ پیش آیا تھا اس کے علاوہ کئی با ر وہ میڈیا اہل کا روں کے سا تھ بد تمیزی جیسے معا ملو ں میں بھی سر خیو ں میں رہ چکے ہیں ۔
خبر آئی ہے کہ جب کو رٹ نے سلمان خان کے خلاف فیصلہ سنا یا تو ان کی آنکھو ں سے آنسو جا ری ہو گئے یہ کیسے آنسو تھے ؟ ظا ہر ہے کہ کسی بھی انسا ن پر جب کو ئی مصیبت آن پڑتی ہے ، تو اس کے جذبا ت اور احسا سا ت آزر دہ ہو ہی جا تے ہیں اور جب وہ آدمی اپنی ایک عوامی امیج رکھتا ہو دنیا بھر میں اس کے لا کھو ں نہیں ، کروڑوں چا ہنے والے ہو ں ، ہر چہا ر جا نب اس کا غلغلہ ہو ، شور ہو ، نو جوانو ں میں اس کا کر یز ہو تب تو معا ملہ اور بھی یہ چا ہتے ہیں کہ وہ صر ف خو بیو ںکا مر قع ثا بت ہوا اور وہ لوگ اسے صر ف اپنے خوا ب نا ک تصور کی نگا ہو ں سے ہی دیکھتے ہیں اور اس قسم کے” Public figures“کے سا تھ بھی یہ مسلہ ہو تا کہ وہ اپنے آپ کو لیے دیے رکھیں اور خود کو اس طرح Manage کریں کہ لو گو ں کی نگا ہو ں میں ویسے ہی نظر آسکیں ، جیسا کہ وہ اُنھیں دیکھنا چا ہتے ہیں ۔ مگر انسا ن بہر حال انسا ن ہے ، وہ چا ہے مقبولیت و شہرت کے جس آسمان پر بھی پہنچ جائے وہ مافوق البشر ہستی تو بن نہیں سکتا اگر چہ وہ اپنی اداکاری کی دنیا میں ایک تصوراتی ،اساطیری و ماورائی حیثیت اور شناخت رکھتا ہو مگر حقیقت کی دنیا میں تو وہ جو ہے وہی رہے گا ۔ اس کے اندر اگر بہت سی خو بیاں ہو ں گی تو چند ایک خامیاں بھی ضرور ہو ںگی ۔فلموں میں باڈی دیکھانا غنڈوں کی کھیپ کی کھیپ کو آن کے آن میں لمبا لیٹ کر دینا سیاست و معاشرت کی خامیوں پر انگلی رکھنا اور انھیں دور کرنے کی مہم چلانا وغیرہ یہ سب کوئی ایکٹر کی فکر اور سوچ کی عکاسی تو ہوتا نہیں یہ اسکرپٹ رائٹر دیتا ہے ، سو ہم اگر فلم اسٹاروں کے بارے میں یہ سوچتے ہیں کہ وہ اپنی واقعی اور خارجی زندگی میں بھی بڑے مسیحا ہیں ان کے دل میں انسانوں کی بڑی ہمدردی پائی جاتی ہے وہ لوگوں کی تکلیف کو نہیں یکھ سکتے اور کمزروں اور نا تو انوں کی مدد سے کبھی بھی دریغ نہیں کرتے تو یہ محض ہمارا بھرم ہے ۔ فیصلہ سننے کے بعد جس سلمان خان کی آنکھوں میں آنسووں کی بوند یں تیر رہی تھیںکیا 2002 ءکی اس رات بھی ان کی آنکھوں میں نمی آثار ہوید اہوئے تھے ،
جب ان کی مدہوش ڈراﺅنگ کے ذد میں کئی بے قصور اور سماج کے سب سے کمزور افراد آ گئے تھے وہ Being Human کے نام سے ایک این جی او بھی چلاتے ہیں اور ہم نے سنا ہے کہ وہ اس کے ذریعے وہ تنگ دستوں ، کمزور وں اور غر یبوں کی بڑی مدد بھی کرتے ہیں ، مگر مسئلہ تو یہ ہے سلمان خان جیسے انسان کے پاس اسی سطح کے غریبوں کی تو رسائی ہوتی ہے گلی محلوں یا گاﺅں دیہاتوں میں بھوکے ننگے پھرنے والے انسان ایسے ہائی پرو فائل رفاہی اداروں تک کہاں پہنچ پاتے ہیں بہر کیف میری تحریر کا اصل مدعا مذکورہ بالا کیس ،اس پرآنے والا تازہ ترین فیصلہ اور اس کے متعلقات ہیں اس فیصلے کے بعد مجموعی طور پر میڈیا میں بھی اور سماجی سطح پر بھی دو قسم کے تا ثرات پائے جارہے ہیں کچھ لوگ ہےں جو ان سے اظہار ہمدردی کر رہے ہیں بلکہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کی سزا کے فیصلے کو ہی غلط مان رہے ہیں ۔ اظہار ہمدردی کرنے والوں میں بالی ووڈ کا گلیمر ورلڈ سر فہرست ہے کیونکہ مسٹر خان کے جیل رسید ہونے کی وجہ سے بالی ووڈ کا دو سو کروڑ داﺅ پر لگ رہا ہے کئی ہیرو ہیروئن ان سے اظہار ہمدردی کر چکے ہیں اور ابھی اور کریں گے ویسے فیصلہ آنے کے فوراً بعد ہی ان کی ضمانت کی عرضی بھی ممبئی ہائی کورٹ میں داخل کر دی گئی ہے ایسا لگ رہا ہے کہ گویا سلمان خان کے جیل جان کی وجہ سے کوئی قیامت سی بر پا ہو جائے گی ۔ جبکہ ایسے لوگ بھی ہیں جن کا بجا طور پر یہ ماننا ہے کہ یہ فیصلہ انصاف پر مبنی ہے اور مسٹر خان کو جو سزا سنائی گئی ہے بالکل درست ہے زیادہ تر لوگوں کا ماننا یہی ہے اور ہو نا بھی یہی چاہیے ۔ ہندو ستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں کا قانونی نظام مضبوط ہے لوگوں کو اس پر اعتمادہے اور وہ ہمیشہ اس اعتماد کو قائم رکھنے کی کامیاب کو شش کر تارہا ہے کو تاہیاں اور چوک بھی ہوتی رہتی ہیں مگر عام طور پر ہندوستان کی معزز عدلیہ سے جس انصاف کی امید کی جاتی ہے اس پروہ کھری اترتی ہے ۔ البتہ اس تاریخی فیصلے کے آنے کے بعد ماہرین قانون و سماجیات کے در میان پھر ایک بحث زور و شور سے شروع ہو گئی کہ ہمارے ملک کی عدالتیں فیصلے سنا نے میں اتنی تا خیر کیو ں کر دیتی ہیں کہ بے چا رہ مظلو م تھک ہا کر کر چور ہو جا تا ہے اور مجر م کھلے بندو ں گھو متا ، معمول کی زندگی گزا رتا اور عیش کی روٹی توڑ تا رہتا ہے کہتے ہیں کہ انصا ف میں تا خیر بھی ظلم اور نا انصا فی کے مترا دف ہے ،تو اس پس منظر میں تو ہما رے ملک کی عدلیہ انصا ف کے اصل تقا ضو ں کو مکمل طور پر پو ری کر تے ہو ئی نظر نہیں آتی ۔ ایک بے قصو ر اور معا شرتی و معا شی اعتبا ر سے کمز ور و نا تو ں انسا ن ایک دو سرے بظا ہر طا قت ور ، مشہور ترین اور نو جوان ہند و ستا ن کی نگا ہو ں میں اسٹا ر انسا ن کی مد ہو شا نہ ڈرائیونگ کے نتیجے میں آج سے با رہ سال پہلے عالم خو اب ہی میں جان سے ہا تھ دھو بیٹھا ہے ۔ مر نے والے کو دیکھنے والی بھی پچا سو ں آنکھیں ہیں اور ما رنے والے کو بھی سب گواہیا ں بھی دیتی جا رہی ہیں ، مگر اس کے با وجو د کو رٹ ، عدالت اور ہمارے معز ز جج صحیح فیصلے تک پہنچنے میں با رہ سال کی طو یل تر ین مسا فت طے کر ڈالتے ہیں ایسا یہ کو ئی انو کھا کیس نہیں ہے ملک بھر کی ضلعی ، ریا ستی اور قو می عدالتو ں میں ہزا روں ایسے کیسز ہیں ، جن سے بڑی امیدیں جڑی ہو ئی ہیں ، کتنو ں کی زند گی اور مو ت ان سے وا بستہ ہے ، کتنے خا ندان ان کیسو ں کے نتیجے میں اب تک اجڑ چکے اور تبا ہ و بر با د ہو چکے ہیں ، مگر ظلم و جرم اور عدل و انصا ف کی مسلسل آنکھ مچولی ان مقد ما ت کو دراز سے در از تر کیے جا رہی ہے ۔
بہت دیر کی مہر با ں آتے آتے !
8
مئی 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں