اسلام آباد (آن لائن) ہائی کورٹ اسلام آباد کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے متنازعہ اور قابل اعتراض بیان پر وفاقی دارالحکومت اور راولپنڈی کے وکلاء میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ جڑواں شہروں کے وکلاء کا کہنا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی وکلاء کو پیشہ وارانہ اخلاقیات پر لیکچر دینے گئے تھے لیکن خود یہ بھول گئے کہ ایک اعلیٰ عدلیہ کے جج کی کیا ذمہ داریاں اور اخلاقیات ہیں؟
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر چوہدری اشرف گجر نے آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بیان پر دکھ بھی ہوا اور افسوس بھی ہوا لیکن اس پر ردعمل تمام دوستوں کے مشورے کے بعد دیں گے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے وکلاء کی بڑی تعداد جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے دیئے گئے بیان پر حیران اور ششدر ہے۔ زیادہ تر وکلاء کا کہنا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اگر اس قسم کا بیان اس وقت دیتے جب ان کے خلاف کچھ بھی نہ ہوتا تو ان کی بات میں وزن بھی ہوتا لیکن ایک معتبر ادارے سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے خلاف ریفرنس زیر سماعت ہے اور اس ریفرنس میں ان کے خلاف اختیارات سے تجاوز اور کرپشن کے سنگین نوعیت کے الزامات ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ریفرنس کی سماعت 29 جولائی کو کھلی عدالت میں ہونے جارہی ہے اور 29 جولائی کو ہونے والی سماعت بھی جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے مطالبے پر کھلی عدالت میں کی جارہی ہے لہذا ریفرنس سے سرخرو ہوکر جسٹس شوکت عزیز صدیقی اگر یہ بیان جاری کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا اور یا پھر انہیں مستعفی ہوکر ایسا رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بیان کے بعد جڑواں شہروں کے وکلاء اس حوالے سے ایک اصولی سٹینڈ لینے کیلئے مشاورت بھی کررہے ہیں۔
زیادہ تر وکلاء کا خیال ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے ایسے بیان دے رہے ہیں۔ کچھ وکلاء کا یہ بھی کہنا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو قابل اعتراض بیان دینے کا موقع اس لئے ملا کہ ہماری سپریم جوڈیشل کونسل ججوں کے خلاف ریفرنسز کو سالہا سال تک التواء میں ڈالے رکھتی جس کی وجہ سے الزام کی زد میں آنے والے ججوں کو تحفظ کیلئے چھتری تلاش کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ مرحومہ عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں ہمیشہ اعلیٰ عدالتوں پر زور دیا کہ ججوں کے خلاف ریفرنس جلد نمٹائے جائیں جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل سمیت چار صوبوں کی ہائی کورٹس بار ایسوسی ایشن بھی پر زور مطالبات کر چکی ہے کہ ججوں کے خلاف ریفرنس کو سپریم جوڈیشل کونسل جلد نمٹائے لیکن ان مطالبات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔