اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)گزشتہ روز پاکستان کے صوبے بلوچستان میں مستونگ کے علاقے درینگڑھ میں بلوچستان عوامی پارٹی کی انتخابی کارنر میٹنگ میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت 128سے زائد افراد شہید ہوئے۔ اس افسوسناک واقعہ نے پورے ملک کو سوگ کی کیفت میں مبتلا کر دیا ہے۔ سانحہ درینگڑھ کے سوگ میں آج بلوچستان میں قومی پرچم سرنگوں رہا
جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے صوبے بھر میں 3روزہ سوگ کا اعلان کرتے ہوئے تین روز کیلئے انتخابی سرگرمیاں معطل کر دی گئی ہیں۔ آرمی چیف، وزیراعظم سمیت اعلیٰ حکام اور سیاسی قائدین کی جانب سے دہشتگردی کی اس وحشت ناک کارروائی کی بھرپور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے انتخابی عمل کو سبوتاژکرنے کی کوشش قرار دیا گیا ہے۔ حملے کی ذمہ داری دہشتگرد تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔ داعش کی جانب سے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اس تنظیم کے پاکستان دشمن ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں اور پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے جہاں بھارت بلوچستان میں مکروہ کھیل کھیل رہاہے وہیں پس پردہ رہتے ہوئے اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے بھیانک اور مکرہ کھیل کی چالیں چل رہا ہے۔ سراج رئیسانی کی بھارت اور اس کی ایما پر بلوچستان میں دہشتگردی کا بازار گرم کرنے والی طاقتوں سے کیخلاف نفرت اور جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سراج رئیسانی استحکام پاکستان کے بہت بڑے داعی اور بھارتی مکروہ عزائم کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہے۔ آپ نے بلوچستان میں بھارت کے مکروہ پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دیا جس کا زیادہ تر ہدف نوجوان طبقہ تھا۔ سراج رئیسانی نے نوجوانوں میں وطن سے محبت اور ملک دشمن قوتوں کے سامنے ڈٹ جانے کا سبق دیا۔
نوابزادہ سراج رئیسانی 4 اپریل1963 کو ضلع بولان کے علاقے مہر گڈھ میں پیدا ہوئے اور ان کا تعلق بلوچستان کے رئیسانی قبیلے سے تھا۔نوابزاد سراج رئیسانی نے ابتدائی تعلیم بولان سے حاصل کی اور بعد ازاں زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام سے ایگر و نومی میں بی ایس سی کیا، جس کے بعد نیدرلینڈ سے فلوری کلچر کا کورس کیا۔سراج رئیسانی کے والد مرحوم نواب غوث بخش رئیسانی
سابق گورنر بلوچستان اور سابق وفاقی وزیر خوراک و زراعت بھی رہے۔برٹش دور میں یہ خطہ دو انتظامی یونٹ میں تقسیم تھا جس کو جھاراوان اور ساراوان کہا جاتا تھا۔ اس دور میں خان آف قلات یہاں کے حکمران تھے اور نواب غوث بخش رئیسانی ساراوان کے چیف تھے۔ انہوں نے 1970 میں بلوچستان متحدہ محاذ کی بنیاد رکھی۔سراج رئیسانی سابق وزیر اعلی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی
اور سابق سینیٹر و بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما نوابزادہ لشکری رئیسانی کے چھوٹے بھائی تھے۔سراج رئیسانی نے چند سال قبل بلوچستان متحدہ محاذ کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے رواں سال تین جون کو اپنی جماعت کو صوبہ میں بننے والی نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں ضم کرنے کا اعلان کیا اور بی اے پی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی نشست حلقہ پی بی35 مستونگ
سے الیکشن لڑرہے تھے۔سراج رئیسانی کی بھارت سے نفرت اور پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ بھارت کی بلوچستان میں مکروہ سرگرمیوں کے خلاف نفرت کے اظہار کیلئے بھارتی ترنگے کو پائوں تلے روندتے ہوئے احتجاج کرتے اور وطن سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ’’آزادی ریلی ‘‘کا انعقاد کیا اور دو کلومیـٹر طویل پاکستانی پرچم بنا کر ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا۔
سراج رئیسانی وطن دشمن قوتوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے تھے اور ان کو سکیورٹی تھریٹ بھی موصول ہوئے جس کے جواب میں ہمیشہ کہا کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے ، کسی سے ڈر کر گھر میں چھپ کر نہیں بیٹھ سکتا، وطن کو ہماری ضرورت ہے اور اس سے بڑھ کر میرے لئے کیا اعزاز ہو گا کہ میری جان اس ارض پاک پر قربان ہو جائے۔ سراج رئیسانی پاک فوج کی
دہشتگردی کے خلاف جنگ اور بلوچستان میں بھارتی دہشتگردی کے خلاف دیوار کی طرح ڈٹ جانے کو تحسین کی نظر سے دیکھتے تھے ، وہ پاک فوج کے شیدائی تھے اور ہر موقع پر پاک فوج کیلئے ستائش کے الفاظ استعمال کرتے۔ یہاں یہ بات نہایت قابل ذکر ہے کہ سراج رئیسانی نے صرف الفاظ سے ہی نہیں بلکہ نہ صرف اپنا خون پیش کر کے پاکستان سے محبت کا اظہار کیا بلکہ 2011میں اپنے 11سالہ لخت جگر اکمل رئیسانی کی شہادت پر بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ اکمل رئیسانی 2011میں کوئٹہ سٹیڈیم میں ہونے والے دھماکے میں جام شہادت نوش کر گئے تھے۔