درعا (انٹرنیشنل ڈیسک)اردن کی سرحد کے قریب واقع درعا ہی وہ شہر جہاں سے چھ برس قبل شامی صدر بشار الاسد کے خلاف مزاحمتی تحریک شروع ہوئی تھی۔شام کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق ملکی فوج نے اردن کی سرحد کے قریب واقع بڑے شامی شہر درعا کے بعض حصوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اس پر ملکی پرچم لہرا دیا ہے۔ درعا شہر گزشتہ کئی برسوں سے باغیوں کے قبضے میں تھا۔
اس کامیابی کو شامی صدر بشار الاسد کی ایک بڑی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔ کیونکہ یہی وہ شہر ہے جہاں سے چھ برس قبل شامی صدر کے خلاف مزاحمتی تحریک شروع ہوئی تھی۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے شام کے سرکاری ٹیلی وژن کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملکی فوج نے درعا کے مرکزی پوسٹ آفس کے قریب یہ پرچم لہرایا۔ پوسٹ آفس وہ واحد حکومتی عمارت ہے جو درعا شہر کے اس حصے میں واقع ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے باغیوں کے قبضے تھا۔ 2011ء میں بغاوت شروع ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی یہ حصہ باغیوں کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ اس خانہ جنگی کے سبب شام میں لاکھوں افراد ہلاک جبکہ 11 ملین سے زائد گھر بار چھوڑ کر مہاجرت پر مجبور ہوئے۔روئٹرز کے مطابق صوبہ درعا میں شامی فوج نے روسی فضائی مدد کے ساتھ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران صوبہ درعا میں کئی مقامات کا کنٹرول حاصل کیا ہے۔ اْردن اور اسرائیل کی سرحد کے قریب واقع صوبہ درعا میں مغربی ممالک کے حمایت یافتہ باغیوں کا قبضہ تھا۔ تاہم شامی فوج بغیر کی خاص مزاحمت میں ان علاقوں میں آگے بڑھتی رہی ہے۔صوبہ درعا میں شامی فوج نے روسی فضائی مدد کے ساتھ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران صوبہ درعا میں کئی مقامات کا کنٹرول حاصل کیا ہے۔امید کی جا رہی ہے کہ شام کے جنوب مغربی حصے میں اس شامی فوجی کارروائی میں اب گولان ہائٹس کے علاقے میں موجود باغیوں کے زیر قبضہ حصوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ گولان ہائٹس اسرائیل کے قبضے میں ہیں اور اسرائیل کی طرف سے کہا جا چکا ہے کہ وہ شامی فوج کی کسی ایسی کوشش کی مخالفت کرے گا۔دوسری جانب روسی فوج کے اہلکار بھی درعا پہنچ گئے ہیں۔ وہ اس شہر میں موجود باغیوں سے امن مذاکرات کر کے انہیں قائل کریں گے کہ وہ شہر کا قبضہ چھوڑ کر پیچھے ہٹ جائیں تا کہ دمشق حکومت کی عمل داری قائم ہو سکے۔