اسلام آباد(نیوز ڈیسک) سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کے خلاف 12 ماہ کے دوران تیسرا عدالتی فیصلہ سامنے آیا ہے۔ جمعہ کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کی جانب سے ایوان فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال قید اور 80 لاکھ پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائے جانے سے قبل سابق وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز لیکس کیس اور بعد ازاں انتخابی اصلاحات ایکٹ کیس 2017 سے متعلق فیصلہ سنایا گیا تھا۔
خیال رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف پاناما لیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا تھا۔ملکی تاریخ کے اس سب سے بڑے کیس کا حتمی فیصلہ عدالت عظمیٰ کے کمرہ نمبر ایک میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس عظمت سعید شیخ ، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سنایا۔25 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ کے 5 جج صاحبان کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف نااہل قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ نواز شریف نے کیپیٹل ایف زیڈ ای سے متعلق کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپائے، نواز شریف عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 12 کی ذیلی شق ٗٹو ایف اور آرٹیکل 62 کی شق ون ایف کے تحت صادق نہیں رہے، نواز شریف کو رکن مجلس شوریٰ کے رکن کے طور پر نااہل قرار دیتے ہیں ٗالیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن فوری طور پر جاری کرے، نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد نواز شریف وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔بعد ازاں 21 فروری 2018 کو سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ کیس 2017 کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ سنایا تھا جس کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے لیے بھی نااہل ہوگئے تھے۔انتخابی اصلاحات ایکٹ کیس کا متفقہ فیصلہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی
سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سنایا تھا ،جس میں کہا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہ اترنے والا یا نااہل شخص پارٹی صدارت کا عہدہ نہیں رکھ سکتا جبکہ اس فیصلے کا اطلاق اس وقت سے ہوگا جب اسے نااہل قرار دیا گیا ہو۔نواز شریف کے خلاف پاناما پیپرز لیکس کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے 11 ماہ اور 7 روز بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نواز شریف کے خلاف 6 جولائی 2018 کو نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سنایا۔