اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)الیکشن کمیشن آف پاکستان نیب کو لگام ڈال سکتا ہے، مسلم لیگ ن کے خلاف حالیہ متنازعہ کریک ڈائون کی وجہ سے کوئی لوگوں کے ذہنوں میں انتخابات کے شفاف ہونے کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا ہو چکے ہیں، معروف صحافی انصار عباسی کی رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشافات۔ تفصیلات کے مطابق معروف صحافی انصار عباسی نے اپنی ایک رپورٹ
میں انکشاف کیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس قانونی طور پر اختیارات ہیں کہ وہ نیب کو لگام ڈال سکے کیونکہ بیورو نے مسلم لیگ ن کیخلاف اپنے حالیہ متنازع کریک ڈائون کی وجہ سے کوئی لوگوں کے ذہنوں میں انتخابات کے شفاف ہونے کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کر دئیے ہیں جس کا مقصد ن لیگ کا اپنے گڑھ سے صفایا کرنا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ویسے تو نیب پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے لیکن اگر ای سی پی کو یہ لگے کہ نیب کسی مخصوص سیاسی جماعت کو نقصان پہنچانے کی حد تک الیکشن کے عمل میں مشکلات پیدا کر رہا ہے تو الیکشن کمیشن مسلم لیگ ن کیخلاف بیورو کی حالیہ کارروائیوں کو روکنے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن جس نے 30سال سے زائد پنجاب پر حکمرانی کی وہ نیب کے متنازع کریک ڈائون اور اس کے امیدواروں کی پکڑ دھکڑ پر الیکشن کمیشن سے شکایت کرنے والی ہے۔ جب ان میڈیا اطلاعات کا حوالہ دیا گیا کہ مسلم لیگ ن نیب کیخلاف الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا سوچ رہی ہے تو الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا تھا کہ قانون کے تحت کمیشن کو حاصل اختیارات اور سپریم کورٹ کی جانب سے دئیے جانے والے اختیارات کی روشنی میں اگر اسی سی پی کو لگے کہ واقعی بیورو کے اقدامات الیکشن کی شفافیت پر اثر انداز ہو رہے ہیں تو کمیشن نیب کیلئے حدود کا تعین کر سکتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 2012میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو بھرپور اختیارات دئیے تھے تاکہ شفاف، آزاد اور منصفانہ انتخابات کرائے جا سکیں۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اگرکمیشن کو اس بات کا احساس ہو کہ بیورو کے اقدامات الیکشن کی شفافیت پر اثر انداز ہو رہے ہیں تو آرٹیکل 218کے تحت کمیشن کو شفاف، آزادانہ اور منصفانہ الیکشن
کرانے کا مقصد حاصل کرنے کیلئے زبردست اختیارات حاصل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 218کے تحت الیکشن کمیشن کا یہ فرض ہے کہ وہ انتخابات کے انتظام و انعقاد کرائے اور یہ ضروری انتظامات کرنے کے دوران اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ الیکشن ایماندار سے ، منصفانہ انداز سے اور شفافیت کے اصولوں کے تحت قانون کے مطابق منعقد ہوں اور کرپشن کی روک تھام ہو۔
مسلم لیگ ن نے پارٹی کیخلاف نیب کی حالیہ مہم کو نہ صرف قبل از انتخابات دھاندلی قرار دیا ہے بلکہ میڈیا، آزاد مبصرین اور تجزیہ نگار بھی بیورو کے مخصوص پارٹی کیخلاف اقدامات کو متنازع، بے موقع اور غیر منصٖانہ قرار دے رہے ہیں۔ گزشتہ چند روز کے دوران نہ صرف چیئرمین نیب نے شہباز شریف کی پنجاب میں گزشتہ حکومت کیخلاف مبینہ ’’میگا کرپشن ‘‘کے حوالے سے
بے موقع بات کی تاکہ گزشتہ حکومت کو کرپٹ ثابت کیا جا سکے بلکہ بیورو نے چکری این اے 59اور پی پی 10کے مسلم لیگ ن کے امیدوار راجہ قمر الاسلام کو بھی گرفتار کر لیا حالانکہ دو ہفتے قبل ہی نیب نے انہیں الیکشن لڑنے کیلئے کلیئرنس دی تھی۔ نیب نے شہباز شریف کو دوبارہ طلب کیا اور حسین نواز، حسن نواز اور دیگر کیخلاف ریڈ وارنٹ جاری کرنے اور انٹرپول کے ذریعے
انہیں واپس لانے کا بھی اظہار کیا۔ الیکشن کمیشن کے ذریعے کے مطابق، 2012میں سپریم کورٹ نے ای سی پی کو مکمل اختیارات دئیے تھے تاکہ شفاف اور منصفانہ انتخابات کیلئے کمیشن جو مناسب سمجھے وہ کرے۔ ذریعے نے کہا کہ حال ہی میں الیکشن کمیشن نے پارلیمنٹ کی جانب سے کمیشن کی حلقوں کی حد بندی کے عمل پر نظر ثانی کی کوششوں پر بھی سخت اعتراضات اٹھائے۔
نہ صرف یہ کہ کمیشن نے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا بلکہ الیکشن کمیشن کے مینڈیٹ میں کسی بھی کمیٹی یا ادارے کی مداخلت کے حوالے سے عدم برداشت کا بھی اظہار کیا۔ 15مارچ کو کمیشن کا اجلاس چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت ہوا تھا جس میں حلقوں کی حد بندی کے معاملےپر غور کیا گیا۔ اس اجلاس کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کیشن کے
پاس آرٹیکل (3)218کے تحت اختیار ہے کہ وہ الیکشن کا انتظام کرے اور ایمانداری کے ساتھ شفاف اور منصفانہ الیکشن منعقد کرائے اور اس میں کرپشن کی مکمل روک تھام کی جائے۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر کمیشن پارلیمنٹ کو چیلنج کر سکتاہے تو وہ نیب کو بھی الیکشن کو متنازع بنانے سے روک سکتا ہے۔