اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف صحافی منصور آفاق نے اپنے کالم ’’امیدوں کا اکیلا چراغ، عمران خان‘‘ میں لکھا کہ بقا اُسی کیلئے ہے جو دوسروں کیلئے فائدہ مند ہو۔دلوں کی حکمرانی اصل حکمرانی ہے۔ دلوں پر حکومت کر نے والوں کی قبریں بھی زندہ ہو جاتی ہیں۔ جمہوریت بھی دلوں کو فتح کرنے کا نام ہے۔اقتدار اُسی کا حق ہے جسے لوگ محبوب رکھتے ہیں مگر ہم نے جمہوریت کے چہرے پرتیزاب پھینک دیاہے۔
گدھوں کے پنجوں نے اُس کی آنکھیں نوچ لی ہیں۔ مافیا کی گرفت نے اِس کا بند بند مضمحل کر دیا ہے۔بس ایک ڈراؤنی سی شکل ہے جوملک کو مسلسل تباہی کے اندھیریغاروں کی طرف کھینچ رہی ہے۔ ضروری ہوگیا ہے بلکہ بہت ضروری ہوگیاکہ نون لیگ کے ’’بیانیے‘‘پر پابندی لگادی جائے جس کے تحت نواز شریف کی نااہلی عدلیہ اور فوج کی تیارکردہ سازش کا نتیجہ ہے۔میرے خیال میں اِس خوفناک اور بے رحم بیانیے پر سیاست کرنے کی اجازت دینا ملک کو خود اپنے ہاتھوں سے تاریک گھپاؤں میں اتارنیکے مترادف ہے۔میرے نزدیک اس بیانیے پراداروں کی زیادہ دیرخاموشی ٹھیک نہیں ہو گی۔ فوری طور پر کچھ نہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ شاید ایک خوفناک کھیل کا آغاز ہو چکا ہے۔تاثر ہے کہ کئی اور منظور پشتین سامنے آنے والے ہیں۔ اچکزئی کاڈالروں میں لپیٹا ہوا نظریہ کوئٹہ سے لے کر گلگت تک گلی گلی میں تقسیم کیا جارہا ہے۔وہ جسے ’’بانی‘‘ کہا جاتا ہے۔ (یاد رہییہ بانی بیانیہ سے نکلا ہے)اُس نے لندن سیکراچی اور حیدرآباد تک برقی تاریں بچھوادی ہیں۔ ٹائم بم لگا دئیے گئے ہیں اور نازک سا فیوز اڑانے کیلئے ریموٹ اُ س کے ہاتھ میں ہے۔بس فیصلیکا انتظار ہورہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں پاکستان میں پہلی بار کسی امیر ترین شخص کوسزا ہونے والی ہے اوربقول اعتزاز احسن نواز شریف کو بھی یہ بات معلوم ہوچکی ہے۔ شہباز شریف سے کچھ بہتری کی توقع تھی مگر وہ بھی وہیں جا کھڑے ہیں جہاں نواز شریف کھڑے ہیں
انہوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ سے تمام رابطے منقطع کر دئیے ہیں۔ چوہدری نثار کے ساتھ نون لیگ کا سلوک اِس بات کا کھلا ثبوت ہے۔ یہ انقلاب اِس حدتک پہنچ گیا ہے کہ شہباز شریف جو پرویز رشید سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے اب انہی کے تیار کردہ ’’بیانیہ‘‘کو حرزِ جاں بنا چکے ہیں۔ آخر انہوں نے بھی سوچ لیاہے کہ نواز شریف میرے بڑے بھائی ہی نہیں لیڈربھی ہیں۔ وہ جو کچھ کہیں گے میں وہی کروں گا۔ چاہے جیل ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
اطلاعات کے مطابق فیصلہ آتے ہی نون لیگ کا مزاحمتی بیانیہ سوشل میڈیا کی وساطت سے حملہ آور ہونے والا ہے۔اس کے ساتھ ہنگامے اور فسادات کیلئے بھی پلاننگ مکمل کر لی گئی ہے۔ معاشی طور پر بھی پاکستان کو گھیرا جارہا ہے۔لوڈ شیڈنگ اورپانی سے محرومی بھی اسی پلاننگ کا حصہ ہے۔ کئی اور مسائل بھی پیدا کئے جانے والے ہیں۔ مصنوعی افراتفری،طے شدہ ہنگامے اور سیاسی احتجاج کوپندرہ جولائی تک اُس مقام تک پہنچا دینا ہے کہ حکومت الیکشن ملتوی کرنے پر مجبور ہوجائے۔
اسپیشل سیکرٹری داخلہ رضوان ملک نے بھی باقاعدہ کہہ دیا ہے کہ ’’بیرونی قوتیں انتخابات کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں اوریہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے کسی پر بھی حملہ ہو سکتا ہے۔‘‘ وہ جوایٹمی پاکستان کی تباہی کیلئے برسوں سے کام کررہے ہیں انہیں یہ وقت بہت قیمتی لگ رہا ہے۔ وہ کافی عرصہ سے اِس ملعون کوشش میں تھے کہ پاکستانی قوم کے کچھ افراد کو بے وقوف بنا کر انہیں اپنی فوج سے ٹکرایا جائے۔ سچ پوچھئے اُس جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاک فوج پر پہلے دہشت گردی کی جنگ مسلط کی گئی تھی۔ اب یہ جنگ شروع کر دی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہمارے کئی افراد اجتماعی خود کشی کے اِس عمل میں شریک ہو چکے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ جس شاخ پر بیٹھے ہیں اُسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں۔ دشمن پاکستان پر تین اطراف سے وار کر رہے ہیں۔ لبرلز آزادخیالی کے نام پر، انتہا پسند مذہب کے نام پراورجمہوریت نوازحقوق کے نام پر۔اس وقت دشمن کے راستے میں صرف ایک رکاوٹ ہے
جسے عمران خان کہتے ہیں۔ یہ وہ واحد لیڈر ہیں جو دشمنوں کے تمام عزائم خاک میں ملا سکتے ہیں۔ اُن کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ لبرلز عمران خان پرتنگ نظر ہونے کا الزام نہیں لگا سکتے۔ لبرلز کی ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی میں موجود ہے۔ مدینے کی گلیوں میں ننگے پاؤں پھرنے والے کو کوئی مذہب دشمن قرار نہیں دے سکتا۔ تقریباً ہر مسلک کے لوگ اُن کے ساتھ ہیں۔ ’’جمہوریت نواز‘‘ انہیں ’’جمہوریت مخالف‘‘ بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ جمہوریت کے لئے اُن کی قربانیاں بھی کسی سے کم نہیں۔
دشمنوں کیلئے یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ ایسا پس منظر رکھنے والا لیڈر پورے ایمان کے ساتھ افواج پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ بے شک اس وقت عمران خان فوج کی طرف جانے والے ہر وار کو اپنی کشادہ چھاتی پر سہہ رہے ہیں۔ سو اُن کی زندگی کو بے پناہ خطرات لاحق ہیں،اُن کی کردار کُشی کی مہم بھی پورے زور و شور سے جاری ہے۔ حتی کہ افتخار محمد چوہدری کو بھی میدان لایا جا چکا ہے۔ (اللہ کسی سے ناراض نہ ہو)۔ دراصل دنیا کوانتخابات میں عمران خان کی کامیابی یقینی لگ رہی ہے
اور یہ بھی معلوم ہے کہ اگر عمران خان وزیراعظم بن گئے تو پھر پاکستان کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہم ایک مشکل دورانیے میں ہیں۔ ہمیں اِس عرصہ ہولناک سے بڑی احتیاط کے ساتھ گزارنا ہوگا۔ میرا تو مشورہ یہی ہے کہ دو تین ماہ کے انتخابات ملتوی کر دئیے جائیں۔ پہلے ’’بیانیے‘‘کو انجام تک پہنچایا جائے۔بانی کے اردگرد دائرہ تنگ کیا جائے۔ اچکزئی کا بندوبست کیا جائے۔منظور پشتینوں کو جنم لینے سے روکا جائیاور پھر صاف شفاف ماحول میں ہنستا گاتا ہو الیکشن کرایا جائے۔ جس میں تمام پارٹیوں کا ’’بیانیہ‘‘ ملک خداداد اور اُس کے تمام اداروں کے ساتھ وفا داری پر مشتمل ہو۔