کراچی (نیوز ڈیسک) وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ چوروں کو مراعات نہیں دے رہے مگر انہیں قومی دھارے میں لانا ضروری ہے۔ آئی ایم ایف سے بچنے کے لیے بجٹ خسارہ اور درآمدات کم اور برآمدات بڑھانا ہوں گی۔ ہم سب کچھ اچھا چھوڑ کر جارہے اب نئی حکومت کو سنبھالنا ہوگا۔ گرین لائن کا منصوبہ ہمیں بنانا تھا بسیں سندھ حکومت کی ذمے داری تھی۔ پیپلز پارٹی کے سرجانی میں ووٹرز نہیں ہیں اسی لیے دلچسپی بھی نہیں ہے۔کے پی کے میں میٹرو بس کا منصوبہ 13 ارب سے بڑھ
53 ارب روپے کا ہوچکا ہے مگر خان صاحب کو کچھ نہیں کہہ سکتے۔بجٹ میں غلطیوں اور تحفظات کا ازالہ کیا جائے گا۔ ہم ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں، کوئی بھی خوشی سے ٹیکس نہیں دیتا۔ 19کروڑ 88 لاکھ شہری ٹیکس نہیں دیتے۔ تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کئی ٹیکسوں کی شرح کم اور ختم کی گئی ہے۔ افراط زر کی شرح 6 فیصد تک محدود رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہم نے اپنے اخراجات کم کرلیے مگر صوبوں سے ریلیف نہیں ملا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو آئی کیپ کے تحت پوسٹ بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ بجٹ میں غلطیوں اور تحفظات کا ازالہ کیا جائے گا۔ بجٹ مسلم لیگ نون کی پالیسیوں کے مطابق ہے۔ نان فائلرز سے 2 فیصد اضافی ٹیکس لے کر چھوٹ دینا ہماری مجبوری ہے۔بجٹ میں جو غلطیاں رہ گئی ہیں وہ دو ہفتوں میں ٹھیک کرلیں گے ۔ مسلم لیگ نے اپنے منشور کے مطابق بجٹ پیش کیا۔ ہم نے ٹیکس کم کردئیے ہیں۔ ایمنسٹی میں پانچ فی صد ٹیکس کا کہا گیا ہے ۔ شارٹ ٹرم میں ریونیو آجاتا ہے مگر لونگ ٹرم میں نقصان ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ امیر ہیں تو پراپرٹی خریدتے ہیں تو ٹیکس بھی دیں ۔ ہم نے کیا اگر کوئی گاڑی پورٹ پر یا نئی لیں گے تو ٹیکس نیٹ میں آنا پڑے گا ۔ انہوں نے کہا کہ لوگ ٹیکس نیٹ میں آنے سے گریز کرتے ہیں ۔
ہم ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وزیر خزانہ کی بنیادی ذمہ داری ہوتی کی ہے ملکی معیشت میں اضافہ اور خسارے کو کم کروائے۔ 4 ارب روپے ٹیکس جمع کریں گے۔ اس سال آئندہ سال 11فی صد ٹیکس بڑھانے کا کہا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ کوئی بھی خوشی سے ٹیکس نہیں دیتا۔ نان فائلرز اب 40 لاکھ روپے مالیت سے زائد مالیت کی جائیداد نہیں کرسکتا۔ سیاسی ناقدین کہتے ہیں بجٹ میں تنخواہ دار طبقے اور دیگر کو نمایاں فوائد دیے گئے ہیں۔تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے،
اسی وجہ سے تنخواہ دار طبقے کو چھوٹ بھی دی گئی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو فائدہ ہوا ہے اب وہ شاہد خاقان عباسی اور مجھے یاد رکھے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کئی ٹیکسوں کی شرح کم اور ختم کی گئی ہے۔ کوشش ہے کہ افراط زر کی شرح 6 فیصد تک محدود رکھی جائے۔آئندہ مالی سال 4 ہزار 535 روپے کے محصولات وصول کیے جائیں گے۔ رواں مالی میں 3 ہزار 935 ارب روپے کے محصولات جمع ہونے کی توقع ہے۔ آئندہ مالی سال معیشت کی نمو کا ہدف 6.2
فیصد مقرر کیا گیا ہے۔کہیں ڈیوٹیاں کم کی ہیں تو کئی چیزوں پر ڈیوٹی بڑھائی بھی گئی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں جھوٹ پر مبنی کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں۔ ترسیلات اور برآمدات میں اگر 20 فیصد اضافہ ہوجائے تو درآمدی بل پریشانی کا باعث نہیں ہوگا۔ بجٹ خسارہ کم کرنا ضروری ہے۔ ہم نے اپنے اخراجات کم کرلیے مگر صوبوں سے ریلیف نہیں ملا، درآمدات کو کم کرنے اور برآمدات کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے انفراسٹرکچر کو بہتر کرنے کے لیے
100ارب روپے سالانہ دس سال تک چاہیے، فاٹا کے لیے بجٹ مختص کرنے کے لیے کسی صوبے نے اپنا حصہ کم کرکے فاٹا کو دینے کی حامی نہیں بھری۔ ماضی میں ڈالر کی نسبت روپے کی قدر مستحکم رکھنے کے نقصانات ہوئے ہیں۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ہم سب کچھ اچھا چھوڑ کر جارہے اب نئی حکومت کو سنبھالنا ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں آئی ایم ایف کے کہنے سے پہلے ہی معاشی اقدامات کرلیں۔ آئی ایم ایف سے بچنے کے لیے بجٹ خسارہ اور درآمدات کم اور برآمدات بڑھانا ہوں گی۔ بے روزگاری اور
غربت کم کرنے کے لیے جی ڈی پی کی شرح کو 9 اور 10 فیصد کی سطح پر لانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ڈالر سستا ہوگا تو اس مطلب یہ ہے کہ مہنگی گاڑیوں اور پرتعیش اشیا کو سپورٹ کررہے ہیں۔ 3.8 فیصد کی زرعی نمو 10 سال کی بلند سطح ہے۔ پاکستان میں آٹا دیگر ممالک کے مقابلے میں 50 فیصد مہنگا ہے۔ پاکستان گندم کی امدادی قیمت دنیا میں سب سے کم ہے۔ پاکستان اور بھارت کپاس کی 12 ملیں بیلز پیدا کرتے تھے اور بھارت کی یہ پیداوار 26 ملین بیلز پر چلی گئی ہیں۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ
مسلم لیگ نون کو دوبارہ موقع ملا تو بجٹ ہم ٹھیک کرلیں گے باقی آپ دیکھ لیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانا ہوگا۔ ایسا نہ کرکے ہم اچھے پاکستان اور مسلمان نہیں بن سکتے۔ مسلم لیگ کی حکومت چلانا بہت مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ 5سال میں محصولات کی وصولی دگنی سے زیادہ ہوچکی ہے۔ 19کروڑ 88 لاکھ شہری ٹیکس نہیں دیتے۔ چوروں کو مراعات نہیں دے رہے مگر انہیں قومی دھارے میں لانا ضروری ہے۔ چوروں کو نہیں ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو موقع دیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ گرین لائن کا منصوبہ ہمیں بنانا تھا بسیں سندھ حکومت کی ذمے داری تھی۔ پیپلز پارٹی کے سرجانی میں ووٹرز نہیں ہیں اسی لیے دلچسپی بھی نہیں ہے۔کے پی کے میں میٹرو بس کا منصوبہ 13 ارب سے بڑھ 53 ارب روپے کا ہوچکا ہے مگر خان صاحب کو کچھ نہیں کہہ سکتے۔