اسلا م آباد (نیوز ڈیسک) معروف کالم نگار خاور نعیم ہاشمی اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ شوکت خانم اسپتال میں فنڈ ریزنگ ڈ نر جاری تھا،ہمارے چوٹی کے فنکاروں کے ہندوستان سے بھی ٹاپ کے آرٹسٹ آئے تھے، علی ظفر کو پہلی بار وہاں دیکھا، اس وقت وہ شہرت کی ابتدائی منازل طے کر رہا تھا،اس نے ویاں گیت سنا کر اہل محفل پر جادو کر دیا، بہت داد سمیٹی، یوتھ نے اسے بہت انجوائے کیا،
اس سے پہلے کہ وہ پرفارم کرکے اسٹیج سے واپس جاتا، عمران خان خود مائیک تک پہنچ گئے، وہ کہہ رہے تھے، علی ظفر کی ستائش کے لئے اسٹیج پر آیا ہوں کیوں کہ یہ پاکستانی ہیرو ان نوجوانوں میں شامل رہا ہے جنہوں نے کینسر اسپتال کی تعمیر کے دوران رضاکارانہ طور پر دیواروں پر وائٹ واش کیا، آج وہی علی ظفر پوری دنیا میں پھیلے ہوئے،،می ٹو،، وائرس کا شکار ہو گیا ہے۔ میشا شفیع کے بعد چار اور بھی اس کے الزام کی تائید میں آگئی ہیں، الزام صحیع ہے یا عؑ لط،جب لگ جائے تو یہ کبھی دھلتا نہیں، یہ وہ موذی مرض ہے جس کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا، انسانی نفسیات کے ماہرین مایوس ہیں اور کہتے ہیں کہ قیامت آجائے گی مگر می ٹو کی دوا ایجاد نہیں ہوگی، کیونکہ یہ جبلت ہے جو تخلیق آدم سے چلی آ رہی ہے اس کی جڑیں لا متناہی ہیں، دنیا میں باقی چیزوں میں تو فرق ہو سکتا ہے مگر جبلت ایک جیسی ہی رہتی ہے، اسے اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کے پردوں کے پیچھے تو رکھا جا سکتا ہے جڑ سے نہیں اکھاڑا جا سکتا، لوگ علی ظفر کی حمایت اور اس کے کردار کی صفائی دینے کے لئے بھی سامنے آگئے ہیں،لیکن جو ہونا تھا وہ ہو چکا، ہونی ہوجائے تو اس کی واپسی کے سارے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ میں میشا شفیع کی فیملی کو تین نسلوں سے جانتا ہوں،
ان کے نانا مرحوم ہمارے انتہائی قابل احترام اساتذہ میں شامل تھے،انہوں نے صحافت کے میدان میں بہت نیک نامی پائی مرحوم ساحر لدھیانوی،کرشن چندر اور منٹو صاحب جیسے لوگوں کے ہم نوالہ ہم پیالہ رہے، انہیں فلمی دنیا کا چسکا تھا، انہوں دو فلمیں پروڈیوس بھی کیں پہلی فلم سکھ کا سپنا تھی،جس کے مکالمے فیض صاحب نے لکھے،ان دو فلموں کے پیش کار کے طور پر اہلیہ محترمہ سعد یہ حمید کا نام آیا، ان فلموں کا سرمایہ ان کے قریب ترین دوست ناز سینما کے مالک غلام مرتضی صاحب فراہم کیا تھا،
ان کی دوسری فلم،،پرائی آگ، کی ہیروئن شمیم آرا تھیں۔۔، امیشا کی والدہ محترمہ کو میں نے ان دنوں میں دیکھا جب وہ پرائمری کلاسز کی طالبہ تھیں،انہیں اور ان کی بہن کو ان کے ماں باپ اسکول سے واپس لایا کرتے تھے، یہ ایک انتہائی شریف النفس سفید پوش گھرانہ تھا،لوئر مال کے ایک محلے میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے، سینئیر فلم ایڈیٹر اور ڈائریکٹر رضا میر ان کے ہمسائے تھے، رضا میر نے جب اپنے صاحبزادے آصف رضا میر کو ہیرو بنایا تو میشا کی والدہ جو اس وقت بچی تھیں دروازے میں کھڑی ہو کر اسے دیکھا کرتی تھیں،
والد کی وجہ سے فلم کی دنیا میں دلچسپی قدرتی بات تھی، جب امیشا کی والدہ ٹی وی اسکرین پر آئیں تو انہیں قدرت نے بہت شہرت دی، بہت نام کمایا انہوں نے۔ لیکن۔۔۔ اس اچھے خاندانی پس منظر کو بیان کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ میشا کو کسی کی عزت کے قتل کا لائسنس دیدیا جائے، زیادہ تر لوگوں میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ بات کچھ اور تھی،اس کے علی ظفر پر الزام نے از خود کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں اور ان سوالات کا جواب میشا کو دینا ہوگا،، ہر وقت شو بز کی لڑکیوں کے جھرمٹ میں گھرے رہنے والے علی ظفر نے اسے اس وقت جنسی ہراسمنٹ کا شکار کیوں کیا
جبکہ اس کی جوانی ڈھل چکی تھی، وہ دو بچوں کی ماں بن چکی تھی، اورجب وہ خود ایک با اختیار اور طاقتور عورت تھی، اس نے یہ بات اسی دن اپنے شوہر کو بتادی تو وہ کیوں خاموش رہے؟ اب اس راز کو افشاٗ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ اس نے یہ بات اپنے فرینڈز کو بھی بتائی اور انہوں نے بھی خاموشی اختیار کئے رکھی اور تو اور وہ خود بھی علی ظفر کے ساتھ کام کرتی رہی، ہمارے معاشرے میں عورت کے لئے سب سے مشکل کام اس قسم کا واقعہ شوہر کے سامنیبیان کرنا ہے، کیونکہ ہم اس سوسائٹی میں زندہ ہیں جہاں عورت کے قتل کی وارداتیں شک کی بنیاد پر ہوتی ہیں،
جہاں خاوند بیوی کو کبھی شک کا فائدہ نہیں دیتا، جہاں خاوند بیوی کے خلاف کسی موقعے کی تلاش میں رہتا ہے۔۔۔جو عورتیں آج میشا کی زبان بول رہی ہیں، کیا یہ واقعہ پہلے سے ان کے علم میں تھا؟کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، جب کسی مرد کا ہاتھ کسی عورت کے جسم کو ٹچ کرتا ہے تو کیا ہمیشہ اس لمحے کوئی جرم جنم لے رہا ہوتاہے؟ میں یہ بات یہ جانتے ہوئے بھی لکھ رہاہوں کہ عورت یقینآ مرد کے ہاتھوں کی زبان جانتی ہے۔۔ اگر جواب ہاں میں ہی ہے تو شہر کے ان ہزاروں مرد درزیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا جہاں عورتیں اپنی مرضی سے ماپ دیتی ہیں۔
میشا کا الزام ایک حساس معاملہ ہے اس پر دونوں اطراف کے حامیوں اور دونوں کے دوستوں کو احتیاط برتنے کی ضرورت ہے، یہ ایک عالمگیر کہانی ہے، اسے عالمگیر طریقوں سے ہی حل ہونا چاہئیے۔۔۔۔۔۔الزامات سے نہیں ڈائیلاگ سے۔۔۔۔مردوں کو جنسی درندے ثابت کرنے سے عورتوں کی فتح ہرگز ممکن نہیں، بلا شبہ اور بہت سارے ممالک کی طرح پاکستان بھی مردوں کا معاشرہ ہے، لیکن یہ شکایات تو ناروے جیسے ملکوں سے بھی آ رہی ہیں جہاں عورتوں کی بالادستی ہے، ہاں ایک بات اور۔۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی میں بچوں کے ساتھ جنسی جرائم عورتوں سے زیادہ ہوتے ہیں،
کون اٹھائے کا ان معصوموں کا مقدمہ،جن کے والدین خاندان اور گلی محلوں میں اپنی ہی بدنامی کے خوف سے ایف آئی آر تک نہیں کٹواتے۔۔ معاشرہ بھی انسانوں کی طرح ہوتا ہے، معاشرے کا بھی دل و دماغ ہوتا ہے، معاشرے کے بھی کان اور آنکھیں ہوتی ہیں۔۔۔۔ ہماری اور ہماری معاشرتی غیرت کس مقام پر کھڑی ہے؟ کیا ہم ہمیشہ اپنے ہی خلاف اشہارات چھپوا چھپوا کر اپنی عمر تمام کرتے رہیں گے؟دوستیوں میں خلل پڑتے ہیں، رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، اگر ایسا مقام آ جائے تو بقول ساحر لدھیانوی۔۔ تعارف روگ ہوجائے تو اس کا بھولنا بہتر،
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا، ہمارے پاس کوئی ایسا پیمائش کا آلہ موجود نہیں کہ ہم یہ فیصلہ کر سکیں کہ میشا کا الزام درست ہے یا علی ظفر کی خاموشی۔۔۔ لیکن یہ سب ہوتا بھی ہے،اور سب کام کرنے والی لڑکیاں سمجھوتے کرنے والی بھی نہیں ہوتیں، لڑکی کو اس کی مرضی کے خلاف ٹچ کرنا کوئی آسان کام نہیں،اور اب ذکر انرون لاہور کی قدیمی گلیوں کا، لاہور کے بارہ دروازے اور تیرھویں گلی ہے، ان علاقوں کی بعض گلیاں پنسل کی طرح باریک ہیں،اگر ایسی کسی پتلی گلی سے عورت اور مرد کا ایک ساتھ گزر ہوجائے تو بس۔۔۔ نکاح کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے