کراچی (این این آئی) سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن آ ف پاکستان کنور د محمدلشاد نے حالیہ مردم شماری کو فراڈ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ3ماہ میں مردم شماری نہیں ہوسکتی، یہ فارمولا 2 سال یا کم ازکم ایک سال کاہے۔انہوں نے عام انتخابات کے التوا کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قومی الیکشن2018 میں اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما رکن سندھ اسمبلی فیصل سزواری نے کہا ہے کہ حالیہ مردم شماری وحلقہ بندیاں انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان ہیں،
خدشہ ہے کہ منفی نتائج برآمد ہوں گے، مردم شماری کا مسئلہ صرف کراچی کانہیں بلکہ وفاق اور ملک کے مستقبل کا مسئلہ ہے مگر اس مسئلے پر سیاسی جماعتیں بات کرنے کو تیار نہیں، اس کے نقصانات کسی ایک سیاسی جماعت کو نہیں بلکہ عوام کو ہوں گے لہذا تمام سیاسی جماعتوں کو اس مسئلے پر آواز بلند کرنی چاہیے ۔ڈاکٹر ہمابقائی نے کہا کہ اگر نیت خراب نہ ہو تو عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گے،سیٹ ایڈ جسمنٹ انتخابات میں دھاندلی اور ووٹرز کی آ نکھوں میں مرچیں ڈالنے سے بہترہے ،سسٹم کو ووٹ کی طاقت سے ہی بدلا جا سکتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں ویمن میڈیا سینٹر کے زیر اہتمام ایک روزہ “مردم شماری،حلقہ بندیاں اور انتخابات 2018 سے متعلق تحفظات اور چیلنجز” کے موضوع پرکانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔کانفرنس سے سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن آ ف پاکستان کنور محمد دلشاد، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما رکن سندھ اسمبلی فیصل سبزواری ،آئی بی اے کے شعبہ سوشل سائنس کی ڈ ین ڈاکٹر ہمابقائی،ویمن میڈیا سینٹر کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر وجنرل سیکرٹری فوزیہ شاہین ،نجی ٹی وی کے اینکر پرسن فیصل کریم اورویمن میڈیا سینٹر کی ایر ج عتیق نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس میں خواتین اور طلبا وطالبات کی ایک بڑی تعدا نے شرکت کی۔اس موقع پرمہمانوں نے شرکا کی جانب سے مردم شماری و انتخابات سے متعلق کیے گئے سوالات کے جواب بھی دیئے جب کہ فوزیہ شاہین نے یمن میڈیا سینٹر کی جانب سے کنور محمد دلشاد، فیصل سبزواری ، ڈاکٹر ہمابقائی اور فیصل کریم کو خصوصی شیلڈ بھی پیش کی۔
قبل ازیں ویمن میڈیا سینٹر کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر وجنرل سیکرٹری فوزیہ شا ہین نے اپنے ادارے سے متعلق شرکا کو بتایا کہ ان ادارہ شعبہ صحافت سے منسلک خواتین کے لیے 2005 سے کام کررہا ہے، کراچی ، کوئٹہ، گلگت سمیت ملک بھر میں خواتین جرنلسٹ کو آگے لانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا تیزی سے ترقی کر ر ہی ہے ، ایسے میں پاکستانی خواتین کو بھی اپنا کردار ادا کر نے کے لیے آ گے آ نا ہوگا، جمہوریت کی مضبوطی کے لیے خواتین بھی کردار ادا کر ر ہی ہیں ،
ملک میں جمہوریت کو مزید مضبوط ہونا چاہیئے ۔سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن آ ف پاکستان کنور د محمدلشاد نے کانفرنس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ مردم شماری سب فراڈ ہے، 3ماہ میں مردم شماری نہیں ہوسکتی، یہ فارمولا 2 سال کا ہے یا پھر کم ازکم ایک سال کا فارمولا ہے ، آ خر 2سال کا کام 3ماہ میں کیسے ہو سکتا ہے ،دنیا کے کسی بھی ملک میں 3 ماہ میں مردم شماری نہیں کی گئی ،یہ صرف ہمارے ہاں ہوا ہے جو فراڈ اور دھوکا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ حلقہ بندیوں سے متعلق 6ماہ کا کام
28روز میں کر دیا گیا ، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا، حلقہ بندیوں سے متعلق قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے بل کو 42 روز ضائع کرکے سینیٹ سے پاس کیا گیا آخر جب یہی بل سینیٹ میں پاس کرانا تھا تو 42روز کیوں ضائع کیے گئے ، 42 روز اس لیے ضائع کیے گئے کے سیاسی جماتیں آپس میں ڈیل کر نے میں مصروف تھیں ۔ کنور محمد دلشاد کا مزید کہنا تھا کہ ساڑھے 18 لاکھ بلاک کا ری آڈٹ ہونا تھا جس پر ابھی تک عمل نہیں ہوا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ
الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں سے متعلق بہتر کام سرانجام دے رہا ہے تاہم مزید بہتری کی ضرورت ہے ، سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کے باوجود الیکشن کمیشن اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے۔ فیصل سبزواری نے کانفرنس سے خطاب اور شر کا کے سوالات کے جواب میں کہا کہ کراچی والوں کا احساس محرومی آج کا نہیں بلکہ یہ 1964 کا مسئلہ ہے، مردم شماری میں شہری علاقوں کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا، ملک میں ہر آدمی ٹیکس نہیں دیتا، کم آمدنی والے لوگ تو پھر بھی ٹیکس دیتے ہیں جبکہ سرمایہ دار،
زمیندار، مراعات یافتہ طبقہ ٹیکس نہیں دیتا، 60 فیصد ریونیو دینے والے کراچی کو وفاق پیسہ نہیں دیتا، کراچی پورٹ سے نکلنے والے مال بردار ٹرالروں سے شہر کی سڑکیں خراب ہورہی ہیں لیکن پھر بھی ان سڑکوں کی مرمت کے لئے وفاق کوئی پیسہ نہیں دیتا، وفاق کی جانب سے ٹیکس میں کمی کے بجائے اضافے کی بات کی جاتی ہے ،آبادی کے تناسب سے صوبوں کو پیسے دیے جاتے ہیں ،زیادہ آبادی ہونے کے باوجود کراچی پیسے سے محروم ہے، سندھ میں پانی اور گندم کی طلب پہلے سے بڑھ گئی ہے،
عوام کے مسائل حل کر نے کے معاملے پر حکومتی کارکردگی صفر ہے، پونے 3 کروڑ کی آبادی والے شہر کراچی کو سوا کروڑ ظاہر کیا جارہا ہے، صوبے سمیت قومی قیادت کراچی کے مسائل پر بات کرنے کو تیار نہیں، تمام سیاستدانوں نے کراچی کے مسائل پر چپ سادھی ہوئی ہے، مردم شماری کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان نے پٹیشن دائر کی ہوئی ہے تاہم اس پرسماعت اب تک التوا کا شکار ہے، مردم شماری کی درجہ بندی کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا تو اس کے منفی نتائج ہوں گے،
کراچی کے کچھ علاقوں میں خواتین ووٹرز کی تعداد کو بھی کم ظاہر کیا گیا ہے، ضلع وسطی میں قومی اسمبلی کے 4 جبکہ ملیر میں3 نشستیں رکھی گئی ہیںیہ عدم توازن نہیں تو اور کیا ہے، حالیہ مردم شماری وحلقہ بندیاں انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان ہیں، جس سے خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ منفی نتائج برآمد ہوں گے، مردم شماری کراچی کا مسئلہ نہیں یہ وفاق اور ملک کے مستقبل کا مسئلہ ہے مگر اس پر کوئی سیاسی جماعت بات کرنے کو تیار نہیں،اس کے نقصانات کسی سیاسی جماعت کو نہیں بلکہ عوام کو ہوں گے
لہذا تمام سیاسی جماعتوں کو اس مسئلے پر آواز بلند کرنی چاہیے ۔فیصل سبز واری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پارٹی اختلافات جلد حل کرلیے جائیں گے، پارٹی اختلافات اپنی جگہ مگر کراچی کے مسائل کے حل کے لیے کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عوام سمیت سیاستدانوں کو نہیں پتا کہ حالیہ مردم شماری میں ان کے ساتھ کیا کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت نے ایم کیو ایم کے ایک بھی ایم پی اے کو ساڑھے 4 برس میں ترقیاتی فنڈ کا ایک پیسہ بھی نہیں دیا
جب کہ مردم شماری و حلقہ بندیوں کے معاملے پر میڈیا ذمے دارانہ کردار ادا کرسکتا ہے لیکن ایسا نظر نہیں آرہا۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات میں ہارنے والا شکست تسلیم نہیں کرتا، نظام کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے، خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے آگاہی دینا وقت کا تقاضا ہے، سیاسی جماعتوں کو بڑے دل سے عوام کے مسائل حل کر نے ہوں گے ۔ڈاکٹر ہمابقائی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر نیت خراب نہ ہو تو عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گے ۔انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں
اور ادارے اپنا اپنا کھل کھلتی ہیں، سیاست دان آ دھا سچ اور آ دھااپناسچ بولتے ہیں،یہ 2013 نہیں 2018 ہے،سیٹ ایڈ جسمنٹ انتخابات میں دھاندلی اور ووٹرز کی آ نکھوں میں مرچیں ڈالنے سے بہترہے ، الیکشن اور حلقہ بندیوں سے متعلق لوگوں کو آ گاہی دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہاں سیاست کو شہری دیہی میں تقسیم کیا ہواہے، اداروں کو مضبوط نہیں ہونے دیا گیا تاہم ادارے بھی بس اس وقت کارراوئی کرتے ہیں جب ان کا اپنا ضمیر جاگتا ہے ۔ہما بقائی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ویسے توہم بھارت سے ہر بات کا مقابلہ کرتے ہیں،
بھارت کا الیکشن کمیشن کا نظام بہت طاقت ور ہے تو اس نظام کو کیوں نہیں اپناتے ،ہمیں ایسے بھی تو اپنا نا چاہیئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہر بات پر از خود نوٹس کالیا جانا لیگل سٹم کی کمزوری کی علامت ہے ،ہماری جمہوریت کمزور ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے جان چھوڑا لی جائے بلکہ جمہوریت کو مضبوط کر نے کی ضرورت ہے ، سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈ ینگ کوئی نئی بات نہیں فاٹا اور آزاد ارکان کا کام ہی یہی ہے ،سیاسی جماعتیں جب مسائل حل نہیں کرتی تو پھر تیسری قوت ہی آ کر مداخلت کرتی ہے، سسٹم کو ووٹ کی طاقت سے ہی بدلا جا سکتا ہے ، ماضی میں (ن) لیگ اور پی پی نے کرپشن پر سمجھوتا کیاہوا تھا۔