چار سدہ (این این آئی)چیف جسٹس پاکستان ٗجسٹس ثاقب نثار نے کہاہے کہ وقت آگیا ہے کہ اب ہماری عدلیہ کو ڈیلیور کرنا پڑیگا اور اگر عدلیہ ڈیلیور نہیں کریگی تو ہم شاید جو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ نہ کرپائیں ٗانسٹی ٹیوشن عمارت سے نہیں شخصیات سے بنتے ہیں ٗ جو قومیں ایڈہاک ازم پر چلتی ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کرتیں ٗہمارے قانون پرانے ہیں ٗ اپ ڈیٹ کر نا مقننہ کا کام ہے ٗ انصاف کا تاخیر سے ملنا انصاف کی موت ہے ٗٹرائل میں جو تاخیر ہوتی ہیں
ان کا حل دیاجائے ٗ دیانت داری، بہترین صلاحیت اور ایمانداری کیساتھ رات دن محنت کریں ٗوزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے پوچھا کتنے نئے تعلیمی ادرے قائم کیے، اس پر کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا ٗجو سوموٹو ایکشن لیے وہ بنیادی حقوق سے منسلک ہوں گے۔ جمعہ کو جوڈیشل کمپلیکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ انسٹی ٹیوشن عمارت سے نہیں بنتے، یہ شخصیات سے بنتے ہیں، دنیا میں قومیں علم، لیڈرشپ، عدالتی نظام اور انسٹی ٹیوشنز سے ترقی کرتی ہیں، جو قومیں ایڈہاک ازم پر چلتی ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کرتیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ادارے ترقی کی ایک مثال ہوتے ہیں، وقت آگیا ہے کہ اب ہماری عدلیہ کو ڈیلیور کرنا پڑیگا ٗ اگر عدلیہ ڈیلیور نہیں کرے گی تو ہم شاید جو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ نہ کرپائیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ ہمارے قانون بہت پرانے ہیں، ان قوانین کو اپ ڈیٹ کرنا مقننہ کاکام ہے، ہم نے قانون کو اپ ڈیٹ نہیں کیا، سب سے بڑا مسئلہ ہے لوگوں کو جلد انصاف نہیں ملتا، وہ کیوں نہیں ملتا، اکیلا اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ پارہا۔چیف جسٹس پاکستان نے مقدمات تاخیر پر بار سے تجاویز طلب کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل میں جو تاخیر ہوتی ہیں ان کا حل دیاجائے تاکہ اسی میں رہتے ہوئے لوگوں کو جلد
انصاف مہیا کرنے میں سرخرو ہوسکیں۔انہوں نے کہا کہ آج بھی کئی ایسے مقدمات کو سپریم کورٹ میں دیکھ رہا ہوں جو 1985 میں دائر ہوئے ٗاب ان لوگوں کو کیا جواب دوں، کتنی دہائیوں کے باوجو ان کو انصاف نہیں ملا، انصاف کا تاخیر سے ملنا انصاف کی موت ہے، یہ نظام کا قصور ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں اور قوم کیلئے قربانی دینا پڑیگی ٗ دیانت داری، بہترین صلاحیت اور
ایمانداری کیساتھ رات دن محنت کریں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ مجھے لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے تعاون فراہم کریں، جو سوموٹو ایکشن لیے وہ بنیادی حقوق سے منسلک ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ تعلیم کے بغیر دنیا میں کوئی قوم اور ملک ترقی نہیں کرسکتا،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے پوچھا کتنے نئے تعلیمی ادرے قائم کیے، اس پر کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔چیف جسٹس نے کہا کہ تعلیم بنیادی حق ہے اسے کس نے نافذ کرنا ہے، ان حقوق کیلئے میرا ساتھ دیں، میرے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں آپ سے تعاون اور اس نظام کو درست کرنے میں مشاورت چاہتا ہوں، بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے ہر وقت حاضر ہوں، سپریم کورٹ کے بینچز میں قانون کی تبدیلی کرکے بینچ نہیں بٹھا سکتا، انسانی حقوق کے معاملے میں کہیں بیٹھ کر کوئی بھی فیصلہ کرسکتا ہوں۔