بدھ‬‮ ، 27 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

خود کشی نہ ہی کچھ اور۔۔ ڈی سی گوجرانوالہ سہیل ٹیپو کو نشان عبرت بنانے کیلئے لٹکایا گیا،نامور صحافی کے تہلکہ خیز انکشافات

datetime 25  مارچ‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک خصوصی مضمون میں لکھتے ہیں  کہ میرے نزدیک سہیل ٹیپو  کی لاش  خودکشی کا رنگ دینے کے لئے نہیں بلکہ نشان عبرت بنانے کا پیغام دینے کے لئے لٹکائی گئی۔ مجھے ٹی وی چینلز کی رپورٹنگ پر حیرت ہے، جنہوں نے لاش کے بندھے ہوئے ہاتھوں کے باوجود سارا دن یہ خبر نشر کی کہ ڈپٹی کمشنر نے خودکشی کر لی ہے۔ صریحاً نظر آنے والی قتل کی واردات کو خودکشی کیسے کہا جا سکتا ہے۔

اچھا ہوا کہ پولیس نے بغیر کسی حیل و حجت کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا، وگرنہ شکوک و شبہات مزید بڑھ جاتے، تاہم حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں گھس کر ڈپٹی کمشنر کو کیسے قتل کیا جا سکتا ہے۔ آپ پنجاب میں کسی بھی ڈپٹی کمشنر ہاؤس کے پاس سے گزریں، کالے گیٹ بند ملیں گے اور پولیس تعینات ہوگی۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی اجازت یا زبردستی ڈپٹی کمشنر کے گھر میں داخل ہو سکے۔ وہاں تو چڑیا بھی پوچھ کے پر مارتی ہے۔اس لئے مجھے حیرت گھیرے ہوئے ہے کہ پولیس ابھی تک قاتلوں تک کیوں نہیں پہنچ سکی۔ کون سا ڈی سی ہاؤس ہے جس کے گیٹ اور دیواروں پر سی سی ٹی وی کیمرے نہیں لگے ہوئے۔موجودہ سیکیورٹی کی صورت حال میں خود محکمہ داخلہ نے جو ایس او پیز جاری کر رکھے ہیں، ان میں سی سی ٹی وی کیمروں کو ہر اہم عمارت پر لازمی قرار دیا گیا ہے، کون سا مشکل ہے کہ ان ٹی وی کیمروں سے صبح کے وقت ڈی سی ہاؤس آنے والوں کا کھوج نہ لگایا جا سکے۔ سوشل میڈیا پر اس واقعہ کے حوالے سے افواہوں اور چہ میگوئیوں کا بازار گرم ہے۔ دور دور کی کوڑیاں لائی جا رہی ہیں، چینلز اور اخبارات بھی طرح طرح کی باتیں منظرعام پر لا رہے ہیں، سیاست کے میدان میں جو رنگ بازی موجود ہے،

اس قتل پر اس کا رنگ چڑھانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا تو نجانے کیا کیا کچھ کہا جائے، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس اور خفیہ ادارے فوری طور پر اس قتل کا سراغ لگائیں اور ملزموں کو کٹہرے میں لایا جائے، وگرنہ یہی سمجھا جائے گا کہ ڈپٹی کمشنر کو ایک سازش کے تحت راستے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ احد چیمہ کی گرفتاری پر سراپا احتجاج بننے والی بیوروکریسی بھی اپنے ایک ساتھی کی پراسرار موت پر چپ سادھے بیٹھی ہے۔

نہ چیف سیکرٹری کا بیان آیا ہے اور نہ ہی ایڈیشنل چیف سیکرٹری کا جو احد چیمہ کی گرفتاری کے بعد سب سے آگے تھے اور یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ بیوروکریسی کو تحفظ نہ دیا گیا تو کام نہیں کر سکے گی۔ نو مور کے بیجز لگانے والے ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کی موت پر خاموش ہیں۔ کیا بیورو کریسی کے اندر بھی اس حوالے سے کوئی تقسیم موجود ہے کہ کس کی خاطر آواز اٹھانی ہے اور کس پر خاموش رہنا ہے۔

ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں کسی ڈپٹی کمشنر کا قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں اور قتل بھی اس انداز سے جس کا ایک واضح پیغام ہو۔ عام قتل کرنے کے لئے گولی بھی ماری جا سکتی تھی، صوفے پر بٹھا کر گلا بھی دبایا جا سکتا تھا، خودکشی کا رنگ ہی دینا مقصود ہوتا تو اس کے لئے ایسے ثبوت نہ چھوڑے جاتے جن سے واضح طور پر قتل کے شبہات ابھرتے۔ مثلاً وہاں کوئی لکڑی کا اسٹول رکھا جاتا جو گرا ہوا نظر آتا، ڈپٹی کمشنر کے ہاتھ پیچھے نہ باندھے جاتے،

انہیں لاش لٹکانے کے بعد کھول دیا جاتا۔ سہیل احمد ٹیپو کو ایسے لباس میں نہ دکھایا جاتا کہ جو خودکشی کرنے والے کا ہرگز نہیں لگتا بلکہ کسی تقریب میں شرکت کے لئے پہنا جانے والا لباس نظر آتا ہے۔یہ سب باتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ مارنے والے قطعاً یہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ واقعہ خودکشی کا نظر آئے بلکہ ان کی کوشش تھی کہ اس سے عبرت ناک انجام کا تاثر ابھرے۔ یہ پیغام وہ کس کو دینا چاہتے تھے،

اس کا تو علم ملزموں کی گرفتاری کے بعد ہی ہو سکے گا تاہم اس کا مقصد معاشرے میں خوف و ہراس پھیلانا ہرگز نہیں لگتا بلکہ اس کا ہدف معاشرے کا ایک خاص مراعات یافتہ طبقہ ہے، جسے حدود میں رہنے کا کھلا پیغام دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیوروکریسی اس وقت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ بغیر سوچے سمجھے احکامات ماننے والے اب جوابدہی کے خوف سے کانپ رہے ہیں، احد چیمہ کی گرفتاری سے بہت سوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں،

ابھی کل ہی سپریم کورٹ نے ڈی جی ایل ڈی اے لاہور زمان زاہد کو نیب میں کیس بھیجنے کی خبر سنا کر ہلکان کر دیا ہے۔ موصوف معافیاں مانگ رہے ہیں مگر مل نہیں رہیں۔ انہوں نے اسحاق ڈار کے ایک فون پر گھر کے سامنے سڑک بنانے کے لئے پارک کو کاٹ ڈالا، یہ پرکشش ملازمتوں پر رہنے کا جنون ہمارے بیوروکریٹس کو کس درجہ نیچے گرا چکا ہے،ایک فون کال پر (جس سے اسحاق ڈار انکاری ہو گئے ہیں) پورے ماسٹر پلان کو تبدیل کر دینا بدترین نااہلی ہے،

جس کا خمیازہ اب زمان زاہد اختر کو شاید بھگتنا پڑے۔ گوجرانوالہ کے ڈی سی سہیل احمد ٹیپو کے بارے میں بھی ایسی ہی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ انہوں نے سیاسی دباؤ پر پہلے کچھ غیر قانونی کام کئے اور انہیں یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ ان کاموں کی ذمہ داری خود اٹھائیں، کسی دوسرے پر نہ ڈالیں لیکن ان کے لئے یہ ممکن نہیں تھا۔ ڈی سی ہاؤس کے ملازمین کا یہ بیان ریکارڈ پر آ چکا ہے کہ وہ پچھلے کئی دنوں سے پریشان تھے اور دفتر بھی نہیں آ رہے تھے۔

انہوں نے بات ماننے سے انکار کیا تو انہیں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ کیا یہ کسی مافیا کا کام ہے،جو ڈپٹی کمشنر سے کام لینا چاہتا تھا، ان کے انکار پر انہیں قتل کر دیا گیا، لیکن یہ سب باتیں تو بعد کی ہیں، پہلی بات یہ ہے کہ قاتل ڈی سی ہاؤس میں داخل کیسے ہوئے، لٹکتی لاش سے واضح ہے کہ اس میں کوئی ایک شخص نہیں بلکہ دو سے تین افراد ملوث ہیں، ذبح کئے ہوئے بکرے کو بھی ٹانگنے کے لئے دو تین آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایک صحت مند جسم کے انسان کو پنکھے کے ساتھ بعد از موت لٹکانا معمولی بات نہیں، اس کے لئے ایک سے زائد افراد نے کوشش کی ہوگی۔ اتنے سارے لوگ ڈی سی ہاؤس کیسے آئے۔ کیا گیٹ پر کوئی نہیں تھا، کیا ڈی سی ہاؤس کی سیکیورٹی اتنی ناقص تھی کہ قاتل گھر کے اندر تک پہنچ گئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی۔ پھر وہ اپنا کام کرکے واپس بھی چلے گئے اور کئی گھنٹے بعد تک قتل کا علم تک نہ ہوا۔ یہ ساری باتیں کسی طلسمی ہزار داستان کی طرح لگتی ہیں۔

کسی انڈین فلم میں بھی ایسے مناظر دکھائے جاتے تو لوگ شو کے بعد ڈبہ فلم کہہ کر اسے مسترد کر دیتے۔ پولیس اگر اس قتل کے معمے کو بھی جلد حل نہیں کر سکتی تو پھر اس کی تفتیشی صلاحیت پر کئی سوال اٹھانے کی مکمل گنجائش موجود ہے۔ دنیا بھر میں پولیس ایسے ہائی پروفائل کیسز کو حل کرنے کے لئے پورا زور لگا دیتی ہے۔ ڈپٹی کمشنر کو کہیں جاتے ہوئے نشانہ بنایا جاتا، یا ڈپٹی کمشنر ہاؤس پر دہشت گردوں کا حملہ ہوتا، یا موت کے بعد ان کی لاش ملتی،

لٹکتی ہوئی لاش کا کرائم سین سامنے نہ آتا تو شاید بات اتنی سراسیمہ کرنے والی نہ ہوتی، لیکن یہاں تو سب کچھ ایک عجوبہ نظر آتا ہے۔اتنا عجیب و غریب قتل اپنے پیچھے بہت زیادہ کہانیاں چھوڑ جاتا ہے۔ جن کے اشارے ابھی سے مل رہے ہیں خود بیوروکریسی ایک نہ ختم ہونے والے عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہو جائے گی۔ اگر ڈپٹی کمشنر اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں تو وہ اپنے دفتر میں کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔

اگر یہ تاثر پیدا ہوتا ہے اور اس کا مناسب توڑ نہیں کیا جاتا کہ ڈپٹی کمشنر سہیل احمد ٹیپو کو راستے سے ہٹایا گیا ہے تو اس کے کتنے ضرر رساں نتائج نکلیں گے۔ پولیس اپنے کسی افسر کو قتل کرنے والے کی زندگی اس لئے اجیرن کرتی ہے کہ اگر پولیس والوں کو مارنے کی روایت چل پڑے تو قانون کا خوف کہاں رہے گا۔ ڈپٹی کمشنر تو ہمارے انتظامی نظام کا سب سے مضبوط عہدہ ہے۔ پورا نظام اسی کے گرد گھومتا ہے۔

اس کی وجہ سے معاشرے میں احساس تحفظ پیدا ہوتا ہے کہ ضلع کا افسر موجود ہے اور متحرک بھی ہے۔ اب اگر وہی اس بے دردی سے اپنے گھر میں قتل کر دیا جاتا ہے تو لوگوں میں خوف اور عدم تحفظ کو کیسے روکا جا سکے گا۔ اگر اس واقعہ کو بھی کسی مصلحت کے تحت روایتی بھول بھلیوں میں ڈال دیا جاتا ہے تو یہ نہ صرف سہیل احمد ٹیپو کے لواحقین سے زیادتی ہوگی بلکہ افسروں اور معاشرے میں بھی چہ میگوئیاں بڑھتی رہیں گی۔

یہ کیس جتنا طویل ہوگا، شکوک و شبہات بڑھتے جائیں گے۔ خود حکومت کے لئے بھی یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اسے حل کرنا اس کی ذمہ داری ہے، وگرنہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سہیل احمد ٹیپو کے ورثاء چیف جسٹس پاکستان سے یہ اپیل کر دیں کہ اس قتل کی تفتیش کے لئے جے آئی ٹی بنائی جائے، اچھی بات ہے کہ پولیس اسے ایک قتل مان گئی ہے، اب آگے کے مراحل میں کسی دباؤ کا شکار ہوئے بغیر جلد از جلد ملزموں تک پہنچ کر انہیں قانون کے کٹہرے میں لانا چاہئے تاکہ وہ چہ میگوئیاں جو آج دبے لفظوں میں اس کے پس پردہ سیاسی ہاتھ تلاش کر رہی ہیں، کل زبان زدعام نہ ہو جائیں۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…