اسلام آباد (این این آئی)پاکستان میں صوبوں کے مابین پانی تقسیم کرنے والے ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی ( ارسا )نے کہا ہے کہ سردیوں میں برف باری اور بارشیں کم ہونے کی وجہ سے خریف میں پانی کے ذخائر 40 فیصد تک کم ہو سکتے ہیں ٗدریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی کے سبب خدشہ ہے کہ منگلا ٹیم بھی پوری طرح بھر نہیں پائے گا۔ارسا کی تکنیکی کمیٹی کے اجلاس میں ہوا جس میں چاروں صوبوں کے نمائندے موجود تھے۔
اجلاس میں ممبران نے بتایا کہ خریف کے موسم فصلوں دریاں میں پانی کے بہاؤ میں کم رہے گا اور خریف سیزن کے آغاز میں دریاؤں میں 17 ملین ایکڑ فٹ کم پانی آئے گا۔اس مرتبہ موسمِ سرما میں ہہاڑوں پر برف باری کم ہوئی ہے اور بارشیں بھی معمول سے کم ہوئی ہیں۔ بارشوں اور برف باری کم ہونے کے سبب دریاؤں میں پانی کا بہاؤ معمول سے کم ہو گا۔ارسا کا کہنا ہے کہ دریاؤں میں پانی کا بہاؤ 95 ملین ایکٹر فٹ رہنے کا امکان ہے جبکہ اوسطً اس موسم میں دریاؤں میں پانی کا بہاؤ 112 ملین ایکڑ فٹ تک ہوتا ہے۔گذشتہ سال دریاؤں میں پانی کا بہاؤ 107 ملین ایکڑ فٹ تک ہوتا تھا۔ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے سبب پاکستان میں دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں 15 سے 20 فیصد کمی آئی ہے۔ارسا کے حکام کا کہنا ہے کہ پانی کے بہاؤ میں سب سے زیادہ کمی دریائے جہلم میں ہو گی اور دریائے جہلم میں پانی کی آمد نو ملین ایکڑ فٹ رہنے کی توقع ہے۔دریائے جہلم پر بننے والے منگلا ڈیم میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی زیادہ سے زیادہ حد 6 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ اگر منگلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کیا گیا تو فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی دستیاب نہیں ہو گا۔ارسا کے مطابق اْن کی سب سے پہلے ترجیح فصلوں کی کاشت کے لیے پانی چھوڑنا ہے اور اگر پانی کے آمد کی صورتحال بہتر نہیں ہوئی تو منگلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ اپنی انتہائی حد سے نیچے ہی رہے گا۔ا
رسا کے حکام نے بتایا کہ پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30 دن کی ہے۔ دنیا بھر میں دستیاب پانی کا 40 فیصد ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان دستیاب پانی کا محض 10 فیصد ذخیرہ کرتا ہے ٗپانی ذخیرہ کرنے کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان سالانہ 29 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں پھینکتا ہے جبکہ دنیا بھر میں اوسطاً یہ شرح 8.6 ملین ایکڑ فٹ ہے۔پاکستان میں آبی ذخائر نہ بننے کی وجہ سے سالانہ 21 ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں شامل ہو جاتا ہے۔