اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیر داخلہ احسن اقبال نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری نثار علی خان نے بیان دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ میرے دور میں بڑا شفاف طریقہ کار تھا اور ایسا تاثر دیا کہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں ، وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ وزارت داخلہ اپنے فیصلے خود کرتی ہے ہم نہ کسی سے ڈکٹیشن لیتے ہیں اور نہ کوئی من مانی کرتے ہیں، ہم قانون کے مطابق چیزوں پر فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں،
انہوں نے کہا کہ چوہدری نثار علی خان نے 2015 کی جس پالیسی کا حوالہ دیا وہ وزارت داخلہ نے بنائی جس میں ایڈیشنل سیکرٹری کے زیر نگرانی کمیٹی قائم کی گئی جو ای سی ایل کیسز کا جائزہ لیتی تھی لیکن اگست 2016 میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا جس میں یہ کہا کہ کابینہ کی منظوری کے بغیر اقدامات کو غیر موثر تصور کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ چوہدری نثار علی خان کو اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا ہوا ہے اس پر انہیں اگست 2016 میں طریقہ کار بدل دینا چاہیے تھا۔ وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہاکہ اب ہم وہ بیک لاک بھی کلیئر کر رہے ہیں اور جتنے ہمارے پاس زیر غور کیسز ہیں ان کو بھی ہم کابینہ میں بھیج رہے ہیں توسیع کے لیے جو نواز شریف کے خلاف بھی ہیں جتنے ہمارے پاس کیسز تھے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ان سب کی کابینہ سے منظوری درکار ہے۔واضح رہے کہ چوہدری نثار علی خان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ای سی ایل کے160حوالے سے معاملات اوپن ہیں، میں نے پہلی بار ای سی ایل میں نام ڈالنے کے حوالے سے اختیارات وزیر سے لے کر کمیٹی کے سپرد کئے۔ کمیٹی فیصلہ کرتی ہے ای سی ایل میں نام ڈالنے کے حوالے سے اور اس کی وجوہات وزارت میں موجود ہوتی ہیں۔چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اسمبلی میں بیان کو صحیح نہیں سمجھا گیا۔ میں نے نوازشریف سمیت کسی کے کیس کے حوالے سے بات نہیں کی۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے تھا کہ میں ن لیگ کا حصہ ہوں،
میں ن لیگ کے کسی لوکل کنونشن میں کبھی نہیں گیا،پارٹی میں بات کرتا ہوں۔ بہت ساری چیزوں کی وضاحت کا وقت قریب آچکا ہے۔ میں نے ہر چیز کو بڑی خاموشی سے ہینڈل کیا، کابینہ میں آنے سے معذرت کر لی، اپنے حلقے تک محدود ہو کر رہ گیا۔ ن لیگ میں اپنے ہاتھوں سے اینٹیں لگائی ہیں، میرے حلقے میں میرے سیاست میں اترنے سے قبل مسلم لیگی امیدوار کی ضمانتیں ضبط ہوتی رہی ہیں بلکہ اس سے بھی آگے بہت کچھ ہوتا رہا۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ یہ درست ہے کہ آمر کے دور کے ایک آرڈیننس کے ذریعے ای سی ایل پر نام ڈالے جارہے تھے
تاہم ای سی ایل کے حوالے سے ایک واضح پالیسی موجود ہے۔ 2013 میں ہم نے اس کو ریویو کیا اور اس کے نئے ایس او پی بنائے۔ اس سے پہلے میاں بیوی کے جھگڑے پر بھی ای سی ایل میں نام ڈال دیا جاتا تھا ہم نے اس کو سنٹرلائزڈ کیا اور اس حوالے سے وزیر داخلہ اور سیکرٹری داخلہ کا کردار نہیں رہا، ہم نے طے کیا کہ وزارت اپنے طور پر کسی کا نام نہیں ڈالے گی۔اگر کسی ادارے کی طرف سے ای سی ایل میں نام ڈالنے کے لئے سفارش کی جاتی ہے تو وہ معاملہ کمیٹی کو بھجوایا جاتا ہے اگر کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے تو وجوہات ایوان میں پیش کی جائیں اور اگر اس کا فیصلہ نہیں کیا تو پھر فیصلہ کسی اور نے کیا ہے۔