اسلام آباد ( آن لائن)پاکستان کے کابل میں متعین سفارتی اہلکار کابل میں سیکورٹی کے ناقص ترین انتظامات اور آئے روز بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے نتیجے میں زبردست ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئے ہیں ۔ایران نے کابل میں متعیناپنے سفارتکاروں کی نفسیاتی صورتحال کے پیش نظر ہر تین ہفتے کے بعد ایک ہفتہ چھٹی دے کراپنے ملک میں گزارنے کی سہولت دے رکھی ہے جبکہ پاکستانی سفارتکاروں کو یہ سہولت میسر نہیں۔ جس کے نتیجے میں بیشتر پاکستانی سفارتکار شدیدذہنی کرب میں مبتلا ہیں۔
کابل کے نہایت پُر فضا مقام پروانمیں پاکستانی سفارتخانے کی 200کنال اراضی موجود ہے۔ 1995-96میں سفارتخانے پر شدید حملے اورگولہ باری کے نتیجے میں تمام قدیم تاریخی عمارت منہدم ہوگئی تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ قیام پاکستان کے بعد برطانوی حکومت نے کابل میں اپنی تمام بلڈنگ اور اردگرد کی اراضی حکومت پاکستان کے حوالے کردی تھی۔ پاکستانی سفارتخانے کی تباہی کے بعد سابق پاکستانی سفیر محمد صادق نے اپنی تعیناتی کے دوران مذکورہ مقام پر سفارتخانہ کی پُر وقار عمارت دوبارہ تعمیر کروا دی تاہم دو سو کنال اراضی کے گرد نہ تو حفاظتی کمپاؤنڈ تعمیر ہوسکا اور نہ ہی سفارتخانہ کے لگ بھگ 70اہلکاروں کیلئے محفوظ پناہ گائیں تعمیر کی جاسکیں ۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ پاکستانی سفارتی سٹاف کی سفارتخانے سے چھ کلو میٹر دو رچانسلر ی کے علاقے میں کرائے پر رہائش گاہیں حاصل کی گئی ہیں جن کا کرایہ ماہانہ ہزاروں ڈالر ادا کیا جارہا ہے۔ اگر دو یا تین سال کے کرائے کے اخراجات جمع کئے جاتے تو اتنی رقم میں سفارتخانے کی اپنی نہایت محفوظ رہائش گاہیں تعمیر ہوسکتی تھیںِ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہر روزپاکستانی سفارتی اہلکار کلمہ پڑھ کر اپنی رہائش گاہوں سے سفارتخانے کی طرف سفر کرتے ہیں۔ راستے میں زیادہ تر تاجک نسل کے لوگ آباد ہیں جو ذہنی طور پر پاکستان کے خلاف ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ پاکستانی سفارخانے کو جلانے اور تباہ کرنے میں بھی ارد گرد کے مقامی لوگ ہی ملوث تھے۔ گزشتہ دو سال سے کابل کی بد ترین سیکورٹی صورتحال میں پاکستانی سفارتی اہلکار شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ کابل سٹیشن چونکہ خطرناک ہے لہذا یہاں متعین سٹاف کو اہل خانہ ہمراہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں طویل عرصہ تک گھر سے دور ذہنی دباؤ میں رہنے والے بیشتر سفارتی اہلکار بیمار ہوجاتے ہیں۔
ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک کابل میں اپنا سٹاف زیادہ سے زیادہ دو سال کیلئے تعینات کرتے ہیں جبکہ پاکستانی اہلکاروں کو پانچ سالوں کیلئے بھیجا جاتا ہے ۔ کابل سے واپس آنے والے بعض سینئر اہلکاروں نے نا م نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی سفارتی اہلکار بہت خوف کے عالم میں وہاں وقت گزار رہے ہیں ۔ ہمارے پاس نہ تو بلٹ پروف اوربم پروف گاڑیاں ہیں اور نہ ہی سیکورٹی کا کوئی انتظام ہے۔ ہمیں پاکستان آنے جانے کا سفر خرچ بھی نہیں ملتا۔ دو ماہ بعد چھٹی کیلئے درخواست کریں تو یہ سفیر کی صوابدید ہے کہ وہ چھٹی دیں یا نہ دیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ دنیا بھر میں جانے والے سفارتی سٹاف کو بیرون ملک سفارتخانے میں تعیناتی سے مالی فائدہ ہوتا ہے جبکہ افغانستان میں متعین سٹاف کو بیک وقت دو گھر چلانے ہوتے ہیں ۔ وہاں کابل میں بھی اس کا بہت خرچ ہوتا ہے کیونکہ کابل دنیا کا مہنگا ترین شہر ہے جبکہ یہاں پاکستان میں بھی ہمارے اہل خانہ کے اخراجات ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت پیسے بچانے کے چکر میں رہتی ہے جس بنا پر ہماری زندگیاں خطرے میں رہتی ہیں۔ ذہنی سکون تباہ ہوجاتا ہے اور کچھ مالی فائدہ بھی نہیں ہوتا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ کابل میں پاکستانی سفارتخانے کے اہلکار ہر وقت واپس گھر جانے کی کوششوں میں رہتے ہیں جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ متبادل ہی نہیں ملتا جس کے بدلے کوئی اہلکار واپس آسکے۔ کابل سفارتخاے میں ہر وقت سٹاف کی قلت رہتی ہے۔انہوں نے بتایاکہ یورپی ممالک نے اپنی محفوظ رہائش گاہیں تعمیر کررکھی ہیں جبکہ انہیں ہر دو ماہ بعد 15روز کے لئے وطن واپس جانے کی اجازت ہوتی ہے اور سفری دستاویزات بھی انکو حکومتیں ہی ادار کرتی ہیں۔معاملے پر سرکاری موقف جاننے کیلئے جب ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ سوالات بھیجیں متعلقہ ڈائریکٹر سے مکمل جواب حاصل کر کے مطلع کر دیا جائے گا۔ جس کے بعد 6 سوالات پر مشتمل میسج بزریعہ واٹس ایپ اور ایس ایم ایس بھیج دیا گیا تاہم چوبیس گھنٹے گزرنے کے باوجودکوئی جواب نہیں دیا گیا۔