ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پاکستان سلامتی کے فیصلے خود کرنا چاہتا ہے،اب امریکی دباؤ قبول نہیں کرے گا،امریکی پالیسی ساز اداروں کا انتباہ

datetime 10  فروری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

واشنگٹن (اے این این ) امریکہ کے پالیسی ساز اداروں نے امریکی حکام کو خبر دار کیا ہے کہ امریکہ نے احتیاط سے کام نہ لیا اور رویہ نہ بدلا تو پاکستان کو ہمیشہ کیلئے کھو سکتا ہے ،پاکستان سلامتی کے فیصلے خود کرنا چاہتا ہے،اب امریکی دباؤ قبول نہیں کرے گا،حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان پر پاکستان کا پہلے جیسا اثر و رسوخ نہیں رہا، وہ سمجھتا ہے امریکہ اسے اپنی ناکامیوں کے حوالے سے قربانی کا بکرا بنا رہا ہے ،پاکستان پر دباؤ بڑھانے

کے معاملے میں احتیاط سے کام لیا جائے،اس کے نتائج مختلف بھی ہو سکتے ہیں ،پاکستان فوجی اور اقتصادی امداد کیلئے چین روس اور سعودی عرب کے ساتھ تعاون بڑھا سکتا ہے ،افغانستان میں موجود امریکی فوج کے لئے سازو سامان کی ترسیل روک سکتا ہے۔امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ میں فارن پالیسی پروگرام کیلئے سینئر فیلو ڈاکٹر وانڈا فیلباب براؤن نے واضح کیا ہے کہ پاکستان سلامتی کے فیصلے خود کرنا چاہتا ہے،اب امریکی دباؤ قبول نہیں کرے گا۔ امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکیسینیٹر رینڈ پال کی طرف سے گزشتہ ماہ امریکی سینیٹ میں پاکستان کیلئے ہر طرح کی امداد روکنے سے متعلق بل متعارف کرائے جانے کے بعد ایسا ہی ایک بل جنوبی کیرولائنا اور کینٹکی کے کانگریس مین مارک سین فورڈ اور ٹامس میسی نے اس ہفتے ایوانِ نمائیندگان میں پیش کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ اور بین الاقوامی ترقی کے امریکی ادارے یو ایس ایڈ کو امریکی ٹیکس دہندگان کی رقوم پاکستان بھیجنے سے روکا جائے۔ عرف عام میں ان دونوں بلوں کا مقصد پاکستان کو ہر طرح کی اقتصادی امداد دینے پر پابندی عائد کرنا ہے۔امریکہ کے معروف تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ میں فارن پالیسی پروگرام کیلئے سینئر فیلو ڈاکٹر وانڈا فیلباب۔براؤن نے ایک

خصوصی انٹرویو میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ اقدام امریکہ میں پاکستان کے حوالے سے شدید مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان حقانی نیٹ ورک کی حمایت ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہے اور طالبان افغانستان میں حملے کر کے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا رہے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ پاکستان کے عسکری حکام اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ حقانی نیٹ ورک اور طالبان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ تاہم پاکستان کی سول انتظامیہ اور خاص طور پر سابق

وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ حقانی نیٹ ورک اور طالبان کی قیادت کہاں موجود ہے۔ انہوں نے ان کے خلاف کارروائی کرنے پر بھی آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ڈاکٹر وانڈا نے کہا کہ پاکستان نے جو کارروائی کی ہے وہ محض جزوی طور پر کی ہے۔ مثال کے طور پر اس نے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف بھر پور کارروائی کی ہے اور چونکہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کی ہر

جگہ نگرانی ممکن نہیں ہے، لہذا اس کارروائی کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان اور لشکر طیبہ کے کچھ لیڈر بھاگ کر افغانستان چلے گئے تھے۔ اس کے بعد پاکستان افغانستان کی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اسے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ڈاکٹر وانڈا کا کہنا تھا کہ امریکی مایوسی نئی نہیں ہے لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے اس بیانیے کی شدت کو بڑھا دیا ہے اور پاکستان کی

فوجی امداد معطل کر دی ہے۔ ڈاکٹر وانڈا کے خیال میں پاکستان اپنی ملکی سلامتی کے حوالے سے خود فیصلے کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں وہ امریکہ کا دبا قبول نہیں کرے گا۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ اگر وہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھرپور کارروائی کرتا ہے تو یہ خود پاکستان کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور دہشت گردوں کی طرف سے پاکستان کے اندر حملے بڑھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب طالبان جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں

کو بھی پاکستان کے اندر حملے کرنے کی ترغیب مل سکتی ہے۔ڈاکٹر وانڈا کہتی ہیں کہ امریکہ میں اب اس حوالے سے ماحول تبدیل ہو چکا ہے اور پاکستان امریکہ میں ایسے کئی دوستوں سے محروم ہو چکا ہے جو اس سے پہلے اس کی حمایت کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے حوالے سے مسئلہ صرف پاکستان کے رضامند ہونے کا نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں ایسی بھرپور کارروائی کیلئے پاکستان کی صلاحیت

میں کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ وہ سمجھتی ہیں امریکہ اور افغانستان دونوں حقانی نیٹ ورک پر پاکستان کے اثرورسوخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کر ہے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ڈاکٹر وانڈا کے خیال میں یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان ایک ایسا مضبوط اور مستحکم افغانستان نہیں چاہتا جو بھارت کا اتحادی ہو اور بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان کیلئے خطرات پیدا کرے۔ یوں پاکستان افغانستان کو کمزور رکھنے کیلئے حقانی نیٹ ورک اور پنجاب طالبان

جیسی تنظیموں کو استعمال کرتا رہے گا۔اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر وانڈا کہتی ہیں کہ امریکہ کو بھی پاکستان پر دبا بڑھانے میں احتیاط سے کام لینا چاہئیے کیونکہ ایک مرحلے پر پہنچ کر ایسا دباؤ نہ صرف غیرموثر ہو سکتا ہے بلکہ اس کے نتائج بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔اس کے علاوہ خطے میں امریکہ کا مفاد اب افغانستان تک محدود نہیں رہا بلکہ وہ افغانستان میں رہ کر چین اور روس کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے اور اس کے

ساتھ ساتھ وہ ایران پر نظر رکھتے ہوئے خطے میں بھارت کا اثرورسوخ بڑھا کر چین کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ایسی صورت حال میں پاکستان کیلئے کیا آپشنز ہیں؟ اس بارے میں ڈاکٹر وانڈا کہتی ہیں کہ پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ ملک سے غربت کا خاتمہ کرے ، تعلیم عام کرے اور ملک کے تمام حصوں میں بجلی اور گیس کی فراہمی جیسی بنیادی سہولتوں کو بہتر بنائے کیونکہ ان سہولتوں کے نہ ہونے سے ایسے حالات جنم لیتے ہیں

جن میں انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔پاکستان۔امریکہ تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے ڈاکٹر وانڈا کہتی ہیں کہ فی الوقت یہ تعلقات انتہائی خراب ہیں اور مستقبل قریب میں ان کے بہتر ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں ملک صدر ٹرمپ کی ٹویٹس کو ایک طرف رکھتے ہوئے صاف دلی اور ایمانداری سے مزاکرات کریں گے اور تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے راہیں تلاش کریں گے۔ تاہم اگر امریکی سینیٹ اور

ایوان نمائیندگان میں پاکستان کیلئے ہر قسم کی امداد ختم کرنے کا بل منظور کر لیا جاتا ہے تو پاکستان فوجی اور اقتصادی امداد کیلئے چین، روس اور سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعاون بڑھا سکتا ہے اور امریکہ کے ساتھ کوئی قابل عمل پالیسی تیار کرنے سے گریز کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اس بات کا بھی امکان ہے کہ پاکستان افغانستان میں موجود امریکی فوجوں کیلئے پاکستان کے راستے امریکی سازوسامان کی ترسیل کی سہولت روک دے۔

ایک اور امریکی تھنک ٹینک یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں جنوبی ایشیا سے متعلق شعبے کے شریک نائب صدر ڈاکٹر معید یوسف نے ایک خصوصی گفتگو میں بتایا کہ پاکستان کا خیال ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں کے حوالے سے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے جبکہ امریکہ سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان اپنا رویہ تبدیل کر لے تو افغانستان میں جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ معیدیوسف کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں یہ دونوں باتیں ہی

درست نہیں ہیں اور حقیقت ان دونوں کے درمیان میں ہے۔ اس کے لئے بہتر حل یہی ہے کہ امریکہ اور پاکستان دونوں انتہائی صاف گوئی کے ساتھ ایک دوسرا کا نقطہ نظر سمجھیں اور باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔امریکہ کے ایک اور معروف تھنک ٹینک اسٹمسن سینٹر میں جنوبی ایشیائی شعبے کے ڈائریکٹر سمیر لالوانی نے بھی وائس آف امریکہ اردو کے پروگرام ویو 360 میں اس بات کی تائید کی کہ اب طالبان اور حقانی نیٹ ورک پر پاکستان کا وہ اثرورسوخ نہیں رہا جو ماضی میں تھا۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…