واشنگٹن (نیوز ڈیسک) پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدوں پر عسکریت پسندوں کے داخل ہونے کے الزامات کی تحقیقات کے لئے بین الاقوامی تعاون سے ایک قابل قبول طریقہ کار اختیار کرنے کی تجویز دی ہے جن سے ان الزامات کی تصدیق ہوسکے۔ ووڈ رو ولسن تھنک ٹینک واشنگٹن میں منگل کے روز خطاب کرتے ہوئے چیئرمین بلاول نے کہا کہ یہ ایک پرساکھ اور قابل عمل طریقہ ہے جس سے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خطے میں امن کے بارے اور دہشتگردوں کے سرحد پار کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے یہ ایک قابل عمل تجویز ہے۔ ووڈرو ولسن انٹٹی ٹیوٹ کی اس تقریب میں سابق سفراء، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سابق افسروں، محققین اور جنوبی ایشیائی خطے میں امن اور سکیورٹی پر کام کرنے والے اسکالرز نے شرکت کی۔ ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر اور سابق سینیٹر اکبر خواجہ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کسی بھی قسم کے انتہاپسند اور عسکریت پسند جو اپنا سکیورٹی اور فارن پالیسی ایجنڈا آگے برھانا چاہتے ہیں وہ امن اور سکیورٹی کے لئے خطرہ ہیں اور انہیں کہیں بھی قدم جمانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک کو ہر صورت میں ختم کیا جائے اور ان سے ہتھیار رکھوائے جائیں لیکن یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب پاکستان اور افغانستان دونوں رابطے میں ہو کر ایک پرساکھ اور قابل تصدیق طریقہ کار اختیار کریں ۔ بلاول بھٹو نے اپیل کی کہ تلخ ماضی کو بھلا دیں اور ان چیلنجوں کا سامنا کریں جو ہماری بقا کے درپے ہیں۔ پاکستان اور مریکہ کے تعلقات کے بارے بھی بلاول بھٹو زرداری نے بات کی اور اس کے ساتھ ساتھ سول ملٹری تعلقات، جمہوریت،انسانی حقوق، پراسرار طور پر غائب کئے جانے والے افراد کا مسئلہ، پاکستان میں اائندہ ہونے والے انتخابات، قبائلی علاقوں میں اصلاحات، معاشی ترقی کی ضرورت اور عسکریت پسندی سے جامع بنیادوں پر لڑنے جیسے مسائل پر بھی بات کی۔
انہوں نے افغانستان میں مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے اور مذہب کے نام پر نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ابھرنے کو سخت ترین اسٹریٹجک غلطی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی تباہ کن پالیسی کے مضمرات کو روکا جائے اور اس کے لئے انہوں نے سیاسی وژن اور مخلصانہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لئے ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ صدر ٹرمپ کے کیے گئے ٹویٹس کے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان ٹویٹ سے درجہ حرارت بڑھا اور کسی قسم کی خارجہ پالیسی پر سنجیدہ روشنی نہیں ڈالی گئی۔
انہوں نے کہا کہ سخت رویہ اور جارحانہ دپلومیسی عقلمندانہ نہیں اور فارن پالیسی کے سنجیدہ مسائل ٹویٹس سے حل نہیں ہو سکتے۔ بلاول بھٹو زرداری نے سامعین کو یاد دلایا کہ عسکریت پسند اور جہادی پیدا کرنے میں امریکہ بھی ذمہ دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے وہ تصاویر دیکھی ہیں جن میں سابق جہادی کمانڈر وائٹ ہاؤس میں صدر ریگن کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اس تقریب میں ان جہادی کمانڈرز کو جارج واشنگٹن کے برابر درجہ دیا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اب انہی جہادیوں نے ان کے ملک اور خطے کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔