پشاور(مانیٹرنگ ڈیسک) جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ علماء شدت پسند نہیں حکمران استعمار کے آگے اتنے جھک گئے ہیں کہ انھیں علماء شدت پسند نظر آرہے ہیں۔ قبائل کے مستقبل کے حوالہ سے اسمبلی سے قانون منظور کرنے میں عجلت کی گئی اور چوری چھپے اسمبلی میں قانون لایا گیا اور سپیکر نے ارکان اسمبلی کو یقین دلایا کہ فاٹا کا ایجنڈا آج پیش نہیں ہو گا لیکن اس کے باوجو جمعیت نے ترمیم پیش
کی لیکن بل کو منظور کیا گیا ہم انضمامی ایجنڈے کے علاوہ تمام تر اصلاحات اور اقدامات کے حق میں ہیں۔حکومت نے قبائل عوام کی رائے کی احترام کرتے ہوئے انضمام کا فیصلہ واپس لے لیا ہے یہ عوام کی فتح ہے حکومت نے سپریم کونسل کی تجاویز بل میں شامل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔صوبائی سیکرٹریٹ پشاور میں صوبائی جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت علماء اسلام کی عوامی پزیرائی کی وجہ سے اسکی رائے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جمعیت علماء اسلام ملکی اور بین الاقومی سطح پر ایک مسلمہ حقیقت ہے جمعیت کے کارکن اور عہدیدار نے دن رات محنت کرکے جمعیت کے فکر اور نظریہ کو امت مسلمہ بلکہ بلکہ پوری انسانیت کیلئے نوید ثابت ہو ئی ہے اور دنیا میں اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دینے سے عالمی اجتماع کی کامیابی نے اہم رول ادا کیا ہے انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام کسی حادثہ کی پیداوار نہیں بلکہ مسلسل تاریخی جدوجہد اور سینکڑوں سال کی تاریخ رکھتی ہے پشاور کی سرزمین جدوجہد کا ثمرہ ہے انہوں نے کہا کہ عام انتخابات میں ہمارا راستہ روکنے کی سازش کی گئی ہیں اور مسلسل انتخابات میں ہماری جیت کو ہار میں تبدیل کیا گیا علما ء کے لبادے میں کچھ قوتوں کو متحرک کرکے جمعیت علماء اسلام اور اسکی قوت کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے اوع اس سلسلے تجوریوں کے منہ کھول دئیے گئے ہیں اعزازیہ کے نام پر علماء کوخریدنے کے بین الاقوامی ایجنڈے پر
عمل پیرا صوبائی حکومر اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہو گی، اور ایسے اقدامات کی مزاحت کرینگے انہوں نے کہا کہ آئندہ عا م انتخابات جمعیت علماء اسلام کے لئے ایک بڑا چیلنچ ہے اور اس کے لئے کارکنوں کو اسبھی سے صف بندی کرنء ہے بھر پور حکمت عملی کے تحت میدان عمل میں اترنا پڑیگا، انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام آئین اور جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہے لیکن اس کے باوجود علماء کرام اور جمعیت علماء اسلام کے رہنماوں کو شیڈول 4میں ڈالا جارہا ہے ، انہوں نے کہا کہ جمعیت علما اسلام کے ساتھہ 4شیڈول کی پراوہ کئے بغیر جماعتی نظم ونسق کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھیں،
انہوں نے کہا کہ علماء شدت پسند نہیں حکمران استعمار کے آگے اتنے جھک گئے ہیں کہ انھیں علماء شدت پسند نظر آرہے ہیں مغرب کی تابعداری اور یہود ونصاریٰ کی پیروی کرتے ہوئے شرم نہیں آتی، اپنے گناہوں اور چاپلوسی کو چھپانے کیلئے علماء کو تنقید کا نشانہ بنایا جاریا یے انہوں نے کہا کہ فاٹا کے مستقبل کے حوالہ سے حکمران قبائل عوام کو نظر انداز کرکے اپنا فیصلہ مسلط کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں، انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اور اسکے قائدین جمہوریت کا چیمئپن کہلانے والی آج عوام کی رائے کو نظر اندا کرکے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں،
کشمیر ، گلگت بلتستان کے مستقبل کیلئے قوم کی رائے لیجاتی ہے لیکن قبائل کے عوام کی رائے کا کیوں اہمیت نہیں دی جاتی ، قبائل عوام اپنی زمین پر کسی دوسرت کا فیصلہ قبول نہیں کرینگے، انہوں نے کہا کہ قبائل کے مستقبل کے حوالہ سے اسمبلی سے قانون منظور کرنے میں عجلت کی گئی اور چوری چھپے اسمبلی میں قانون لایا گیا اور سپیکر نے ارکان اسمبلی کو یقین دلایا کہ فاٹا کا ایجنڈا آج پیش نہیں ہو گا لیکن اس کے باوجو جمعیت نے ترمیم پیش کی لیکن بل کو منظور کیا گیا ہم انضمامی ایجنڈے کے علاوہ تمام تر اصلاحات اور اقدامات کے حق میں ہیں، انھوں نے کہا کہ انظمام کے حوالہ سے حکومتی اقدمات امریکی ایجنڈے کا حصہ ہے
حکومت امریکی دباوٗ میں آکر اس قسم کے اقدامات کر رہی ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت نے قبائل عوام کی رائے کی احترام کرتے ہوئے انضمام کا فیصلہ واپس لے لیا ہے یہ عوام کی فتح ہے حکومت نے سپریم کونسل کی تجاویز بل میں شامل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، انہوں نے کہا کہ ایم ایم اے کے حوالہ سے جمعیت علماء اسلام نے سب سے پہلے اقدام اٹھا کر قائدین کو اکٹھا کیا اور اسکی بحالی کیلئے مشترکہ اجلاس بلاکر اصولی طور پر بحالی کا فیصلہ کیا گیا، انہوں نے کہا کہ مولانا سمیع الحق صاح ایم ایم اے کی بحالی سے متعلق تمام اجلاسوں میں شریک ہونے کے باوجود اچانک فیصلہ حیران کن تھا ،
انہوں نے کہ اکہ علماء کرام کو اعزازیہ کا اعلان ایک ایجنڈے کا ھصہ ہے ، صوبہ بھر کے علماء کرام نے اس کو مسترد کرکے جرات مندانہ فیصلہ کیا ہے ، انہوں نے کہا کہ اس قسم کے اقدامات سے متعلق 2013کے انتخابات کے بعد مجھے آگاہ کیا گیا کہ علماء کرام کو خریدنے کیلئے فنڈز آئے ہیں اور اپ اکیلے رہ جائینگے،انہوں نے کہا کہ ان قوتوں نے مجھے بہت پیش کش کی لیکن الحمد اللہ اس کو تھکرا کر علماء کی عزت اور وقار میں اضافہ کیا ہے، مولانا فضل الرحمان صاحب نے کہا کہ پختون بیلٹ میں مذہب کی جڑیں گہری ہیں اور اس جڑوں کو کھوکھلا کرنے کیلئے کروڑوں ڈالر این جی اوز کے زریعے تقسیم کئے جارہے ہیں، انہوں نے کہا کہ مذہبی جوانوں کو اشتعال میں لاکر اپنے عزایم کی تکمیل کرنے والے علماء کرام کو خرید نہیں سکتے علماء کو خریدنے کے تمام حربے ناکام ہو چکے ہیں ۔ علماء کرام،آئمہ کرام یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان عزائم کے خلاف ڈٹ جائیں، اور اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔