اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نجی ٹی وی چینل ۵کے پروگرام ’’ضیا شاہد کے ساتھ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں و معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی کے پانامہ کیس فیصلے پر بیان جس میں انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے ردی کی ٹوکری میں ، ماہرین قانون کی رائے کے مطابق وہ نا اہل ہو گئے ہیں۔ پروگرام میں شریک ماہر قانون وجہہہ الدین
کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کو عدالت کے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے فارغ کیا گیا تھا۔ دوسرے کیسز میں بھی جن لوگوں نے ایسا کیا ان کو نوٹسز جاری ہوئے تھے لیکن ایکشن نہیں لیا گیا اور معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کر دیا گیا۔ افتخار چوہدری کے چور میں عمران خان کو بھی توہین کا نوٹس جاری ہوا تھا۔ اس وقت میں پی ٹی آئی میں تھا۔ ہم لوگوں نے عمران کو مشورہ دیا تھا کہ معذرت کر لینی چاہئے جو انہوں نے کر لی اور معاملہ ٹل گیا۔ ماہر قانون خالد رانجھا کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی کے اس بیان سے وہ 62/Fکو توڑنے کے مرتکب ہوگئے ہیں۔ وہ نا اہل ہو سکتے ہیں۔ عدالتیں انہیں اتنا ریلیف شاید اس لئے دے رہی ہیں کہ نواز شریف کے کیس کا کفارہ ہو رہا ہے یا اس کے نکالے جانے ی زکوٰۃ نکل رہی ہے اگر وزیراعظم سپریم کورٹ کو تضحیک کا نشانہ بنائے وہاں تو عدالتوں کا احترام ختم ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ کو خود اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ عدالت پیچھے ہٹ گئی ہے، ڈر گئی ہے ورنہ تو وہ ایک منٹ نہیں لگائی، عدالت خود کو نہیں بلکہ قانون کو بچانے کیلئے یہ نوٹس لیتی ہے۔ ماہر قانون ایس ایم ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ اس وقت شاید سیاسی اہمیت کے معاملات میں ہاتھ ڈالنا نہیں چاہتی اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو لوگ انہیں مزید اس میں گھسیٹنے کیلئے زور لگائیں گے۔ توہین عدالت کا نوٹس لینا کورٹ کا استحقاق ہے لیکن
میرے خیال میں وہ اس وقت ان معاملات میں الجھنا نہیں چاہتے، نواز شریف کے خلاف وہ فیصلہ دے چکے ہیں۔ ان پر عملدرآمد ہو رہا ہے، تمام ادارے اس کو قبول کرتے ہیں اس وقت بہتر یہی ہے کہ سپریم کورٹ ایسے نوٹسز سے اجتناب ہی کرے تو بہتر ہے اس وقت توہین کی بارش ہو رہی ہے تمام سیاسی لوگ من مانے بیانات دے رہے ہیں اس طرح کوئی جج فرشتہ نہیں ہے۔ فیصلہ ہو چکا ہے، دلائل دئیے جا چکے ہیں۔