تہران (این این آئی)ایران کے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے درمیان جاری رسہ کشی روز بہ روز شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ سابق صدر محمود احمدی نژاد نے جوڈیشل اتھارٹی کے سربراہ پر کرپشن کا الزام عاید کرتے ہوئے ان کی مبینہ بدعنوانی کے ثبوت منظر عام پر لانے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف اعلیٰ عدلیہ نے سابق صدر کو ’مجنون‘ اور پاگل قرار دیتے ہوئے ان پر کڑی تنقید کی ہے۔ احمدی نژاد کی طرف سے جاری کردہ
بعض دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جوڈیشل کونسل کے چیئرمین صادق آملی لاریجانی، ان کے رشتہ داروں اور دیگر مصاحبوں نے سرکاری اور نجی املاک پر قبضے کیے اوراپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر رکھا ہے۔احمدی نژاد نے اپنی ویب سائیٹ پر بھی وہ ثبوت پوسٹ کیے ہیں اور ساتھ ہی لکھا کہ وہ صادق آملی لاریجانی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ لاریجانی، ان کے بھائیوں اور دیگر قریبی دوستوں نے عہدوں کے اثرو نفوذ کو استعمال کرتے ہوئے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ انہوں نے الزام عاید کیا کہ آملی لاریجانی کرپشن کے باعث اب اعلیٰ عدالتی کونسل کے سربراہ کے عہدے کے اہل نہیں رہے۔ ان کا مسلسل عہدے سے چمٹے رہنا آئین اور عدلیہ کی توہین ہے۔دوسری جانب عدلیہ کے ترجمان غلام حسین محسنی ایجی نے محمود احمدی نڑاد کے تمام الزامات بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انہیں مسترد کردیا ہے۔ ایک پریس کانفرنس میں ایجی نے کہا کہ سابق صدر ہوش وخرد کھو بیٹھے ہیں۔ انہیں الزام تراشی کے بجائے اپنے دماغ کا معائنہ کرانا چاہیے۔ گذشتہ بدھ کو ایرانی جوڈیشل کونسل کے چیئرمین صادق آملی لاریجانی نے بھی محمود احمدی نڑاد کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ احمدی نڑاد منحرف ہوچکے ہیں اور وہ ملک میں ایک نیا فتنہ برپا کرنا چاہتے ہیں۔عدلیہ نے احمدی نژاد کے ایک سابق معاون حمید بقائی کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت 63 سال قید کی سزا بھی سنائی ہے۔