اسلام آباد(ویب ڈیسک) ’پاکستان میں ایڈز کا مرض وبائی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور اگر اس طرف جلد ہی توجہ نہ کی گئی تو اس پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔’یہ نتیجہ پاکستان جرنل آف میڈیکل ایسویشن کے تازہ ترین شمارے
میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں اخذ کیا ہے۔ پاکستان میں ایڈز کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کردہ ادارے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ 33 ہزار ہو گئی ہے۔ صرف ایک سال پہلے ایسے لوگوں کی تعداد 97 ہزار کے لگ بھگ تھی جس کا مطلب ہے کہ پچھلے ایک سال میں پاکستان میں 36 ہزار نئے لوگ ایڈز کے وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ تحقیق کے مصنفین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں صورتِ حال اس لیے بھی تشویش ناک ہے کہ مغربی دنیا میں ایڈز کم ہو رہا ہے، جب کہ پاکستان میں تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘اس کی سب سے بڑی وجہ عوامی آگہی ہے۔ اب وہاں متاثر لوگ محفوظ طریقے استعمال کرتے ہیں جس کے باعث وہ دوسروں میں اس کا وائرس پہنچانے کا سبب نہیں بنتے۔ اس کے علاوہ وہاں سکریننگ کا کارگر نظام نافذ ہے جس کی وجہ سے مریضوں کی
فوری تشخیص ہو جاتی ہے۔ ‘اس کے مقابلے پر ہمارے ہاں لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ ایڈز ہوتا کیا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ ہم مسلمان ہیں، ہمیں ایڈز کیسے ہو سکتا ہے؟’تحقیق کاروں نے کہا کہ ہمارے ہاں ایڈز کے بارے میں بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے، اس لیے عوام کو اکثریت کو پتہ ہی نہیں کہ ایڈز کیا چیز ہے، اور یہ صورتِ حال دیہی علاقوں میں اور بھی خراب ہے۔ایڈزتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES انھوں نے کہا کہ ان کی تحقیق کے دوران جلال پور جٹاں کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں سے ایڈز کے 75مریضوں کا انکشاف ہوا، جب کہ چنیوٹ کے ایک گاؤں میں سے ایڈز کے 40 سے زیادہ مریضوں کی تشخیص کی گئی۔ ان لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کس مرض کا شکار ہیں اور وہ لاعلمی میں دوسروں کو بھی اس موذی مرض کا وائرس منتقل کیے چلے جا رہے تھے۔ مقالے کے مطابق دوسرے مسلمان ملکوں ایران، ملیشیا اور انڈونیشیا میں بھی ایڈز تیزی سے پھیل رہا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت پاکستان کو ایڈز سے نمٹنے میں مدد دے رہا ہے اور اس نے گذشتہ برس پاکستان کو اس مد میں تین کروڑ 71 لاکھ ڈالر کی امداد فراہم کی تھی۔ پاکستان میں کئی مراکز پر ایڈز وائرس کو کنٹرول میں رکھنے والی مہنگی اینٹی ریٹرو وائرل ادویات مریضوں کو مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ مقالے کے مصنفین کے مطابق
مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اس مرض سے وابستہ بدنامی کے باعث سامنے ہی نہیں آتے جس کی وجہ سے ان کے علاج میں دشواری پیش آتی ہے۔انھوں نے کہا کہ جب تک ایڈز اور ایچ آئی وی کی خطرناکی کے بارے میں بڑے پیمانے پر عوام کو آگہی فراہم نہیں کی جائے گی، اس وقت تک اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔