قنوتِ نازلہ کا معنی ہے مصائب میں گھر جانے اور حوادثِ روزگار میں پھنس جانے کے وقت نماز میں اللہ تعالیٰ سے گریہ زاری والحاح، ان کے ازالہ و دفعیہ کی التجا کرنا اور بہ عجز و انکساری ان سے نجات پانے کے لئے دعائیں مانگنا۔ پھر مصیبتیں کئی قسم کی ہوسکتی ہیں۔ مثلاً دنیا کے کسی حصہ میں اہل اسلام کے ساتھ کفار کی جنگ چھڑنا، ان کے ظلم و ستم کا تختہ مشق بن جانا، قحط اور خشک سالی میں مبتلا ہونا، وباؤں اور زلزلوں اور طوفانوں کی زد میں آ جانا وغیرہ۔
ان سب حالتوں میں قنوتِ نازلہ پڑھنا مسنون ہے اور آنحضرتؐ، صحابہ کرامؓ اور سلف اُمت کا معمول بھی۔ اس کا مقصد فقط یہی ہے کہ مسلمان اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ خدا سے معافی مانگیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اہل اسلام پر رحم و کرم فرمائے اور ان کو ان مصائب اور تکالیف سے نجات دے۔ طریقہ اِس کا یہ ہے کہ فرض نما زکی آخری رکعت میں رکوع کے بعد اِمام ’’سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد‘‘ پڑھنے کے بعد بلند آواز سے دعائے قنوت پڑھے۔ اس کے ہر جملہ پرسکوت کرے اور مقتدی پیچھے پیچھے با آوازِ بلند آمین کہتے رہیں۔ آنحضرتؐ اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ سے یہی طریقہ ثابت ہے۔ قنوتِ نازلہ کا طریقہ:۔ مصیبت اور رنج و الم کی شدت اور ضعف کے پیش نظر آنحضرتؐ نے کبھی بعض نمازوں میں قنوت فرمائی ہے اور کبھی پانچوں نمازوں میں۔ چنانچہ صحیح مسلم: ص 732 میں ہے: ’’حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں، بخدا! میں رسول اللہؐ کی نماز (عملاً پڑھا کر) تمہارے ذہنوں کے قریب کرنا چاہتا ہوں۔ راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد حضرت ابوہریرہؓ نے نمازِ ظہر، عشاء اور فجر پڑھائی اور ان میں قنوتِ نازلہ پڑھتے تھے: (مسلم: 676) جس میں اہل ایمان کے حق میں رحم و کرم کی دعا مانگتے اور کفار پر لعنت بھیجتے تھے۔ صحیح مسلم کے اسی صفحہ پر حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ ’’آنحضرتؐ صبح اور مغرب کی نماز میں قنوت پڑھا کرتے تھے۔‘‘
مسلم: رقم 976) حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ (صحیح سنن ابوداود: رقم ۰۸۲۱) ’’جب بنو سلیم کے چند قبائل رعل، ذکوان اور عصیہ نے ستر قاری صحابہ کرامؓ کو دھوکے سے قتل کر دیا تو آنحضرتؐ کا مہینہ بھر یہ معمول رہا کہ آپ لگاتار ظہر، عصر، مغرب، عشا اور فجر پانچوں نمازوں میں ہر نماز کی آخری رکعت میں سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد ان کے حق میں بددعا کرتے، ان پر لعنت بھیجتے اور صحابہ کرامؓ آپ کے پیچھے آمین آمین کہتے تھے۔‘‘ صحیح مسلم کی ایک روایت میں آیا ہے کہ بعض اسیرانِ بلا کی نجات کے لئے آپ نے صرف عشاء کی نماز میں قنوت پڑھنے کا معمول بنایا۔ (مسلم: 576)
جب احادیثِ مذکورہ بالا سے واضح ہوگیا کہ آنحضرتؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک نماز میں، کبھی دو تین اور کبھی پانچوں نمازوں میں قنوت فرمائی ہے تو ہمیں بھی واقعات اور حالات کے تقاضا کے مطابق ایسا ہی کرنا چاہئے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رکھنا چاہئے جب تک دشمنوں کی مکمل طور پر سرکوبی اور مسلمانوں کے مصائب وآلام میں تخفیف نہیں ہوجاتی۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہؐ کا معمول تھا کہ آپ برابر ایک مہینہ تک نمازکی آخری رکعت میں رکوع کے بعد اور سجدہ کرنے سے پہلے ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور دیگر ستم رسیدہ کمزور مسلمانوں کے حق میں نجات کی دعا مانگتے اور کفار کے لئے سخت نِقمت کی جو یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی سی قحط سالی کی صورت میں ہو، التجا کرتے۔ ایک دن آپ نے عشاء کی نماز پڑھائی اور قنوت نہ کی۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا: تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعا کو شرفِ قبولیت بخشا ہے اور وہ سب نجات پاکر مدینہ میں آگئے ہیں۔’’ (صحیح مسلم: رقم:۵۷۶ /صحیح سنن ابوداود:رقم:۹۷۲۱)