جمعہ‬‮ ، 26 دسمبر‬‮ 2025 

یہ ہار کس کا ہے؟

datetime 27  اکتوبر‬‮  2017 |

ابن عقیلؒ اپنا واقعہ لکھتے ہیں کہ میں بہت ہی زیادہ غریب آدمی تھا۔ ایک مرتبہ میں نے طواف کرتے ہوئے ایک ہار دیکھا جو بڑا قیمتی تھا۔ میں نے وہ ہار اٹھا لیا۔ میرا نفس چاہتا تھا کہ میں اسے چھپا لوں لیکن میرا دل کہتا تھا، ہرگز نہیں، یہ چوری ہے، بلکہ دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ جس کا یہ ہار ہے اسے میں واپس کر دوں۔ چنانچہ میں نے مطاف میں کھڑے ہو کر اعلان کر دیا کہ اگر کسی کا ہار گم ہوا ہو تو آ کر مجھ سے لے لے۔

کہتے ہیں کہ ایک نابینا آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یہ ہار میرا ہے اور میرے تھیلے میں سے گرا ہے۔ میرے نفس نے مجھے اور بھی ملامت کی کہ ہار تو تھا بھی نابینا کا، اس کا کسی کو کیا پتہ چلنا تھا، چھپانے کا اچھا موقع تھا مگر میں نے وہ ہار اسے دے دیا۔ نابینا نے دعا دی اور چلاگیا۔ کہتے ہیں کہ میں دعائیں بھی مانگتا تھا کہ اللہ! میرے لیے کوئی رزق کا بندوبست کر دے۔ اللہ کی شان دیکھیں کہ میں وہاں سے ’’ہلہ‘‘ آ گیا۔ یہ ایک بستی کا نام ہے۔ وہاں کی ایک مسجد میں گیا تو پتہ چلا کہ چند دن پہلے امام صاحب فوت ہو گئے تھے۔ لوگوں نے مجھے کہا کہ نماز پڑھا دو۔ جب میں نے نماز پڑھائی تو انہیں میرا نماز پڑھانا اچھا لگا۔ وہ کہنے لگے، تم یہاں امام کیوں نہیں بن جاتے۔ میں نے کہا، بہت اچھا۔ میں نے وہاں امامت کے فرائض سرانجام دینے شروع کر دیے۔ تھوڑے دنوں کے بعد پتہ چلا کہ جو امام صاحب پہلے فوت ہوئے تھے ان کی ایک جواں سال بیٹی ہے۔ وہ وصیت کر گئے تھے کہ کسی نیک بندے سے اس کا نکاح کر دینا۔ مقتدی لوگوں نے مجھ سے کہا، جی اگر آپ چاہیں تو ہم اس یتیم بچی کا آپ سے نکاح کر دیتے ہیں۔ میں نے کہا، جی بہت اچھا، چنانچہ انہوں نے اس کے ساتھ میرا نکاح کر دیا۔ شادی کے کچھ عرصہ کے بعد میں نے اپنی بیوی کو دیکھا کہ اس کے گلے میں وہی ہار تھا جو میں نے طواف کے دوران ایک نابینا آدمی کو لوٹایا تھا۔ اسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔

میں نے پوچھا، یہ ہار کس کا ہے؟ اس نے کہا، یہ میرے ابو نے مجھے دیا تھا۔ میں نے کہا، آپ کے ابو کون تھے؟ اس نے کہا، وہ عالم تھے، اس مسجد میں امام تھے اور نابینا تھے۔تب مجھے پتہ چلا کہ اس کے ابو وہی تھے جن کو میں نے وہ ہار واپس کیا تھا۔ میں نے اس کو بتایا کہ یہ ہار تو میں نے ان کو اٹھا کر دیا تھا۔ وہ کہنے لگی کہ آپ کی بھی دعا قبول ہو گئی اور میرے ابو کی بھی دعا قبول ہوگئی۔ میں نے کہا، وہ کیسے؟ اس نے کہا کہ آپ کی دعا تو اس طرح قبول ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو گھر بھی دیا،

گھر والی بھی دی اور رزق بھی دیا اور میرے ابو کی دعا اس طرح قبول ہوئی کہ جب وہ ہار لے کر واپس آئے تو وہ دعا مانگتے تھے کہ اے اللہ! ایک امین (دیانت دار) شخص نے میرا ہار مجھے لوٹایا ہے، اے اللہ! ایسا ہی امین شخص میری بیٹی کے لیے خاوند کے طور پر عطا فرما دے۔ اللہ نے میرے باپ کی دعا بھی قبول کر لی اور آپ کو میرا خاوند بنا دیا۔۔ تو مخلص بندے کا کام اللہ تعالیٰ کبھی رکنے نہیں دیتے، اٹکنے نہیں دیتے بلکہ اس کی کشتی ہمیشہ کنارے لگا دیاکرتے ہیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



وزیراعظم بھینسیں بھی رکھ لیں


جمشید رتن ٹاٹا بھارت کے سب سے بڑے کاروباری گروپ…

جہانگیری کی جعلی ڈگری

میرے پاس چند دن قبل ایک نوجوان آیا‘ وہ الیکٹریکل…

تاحیات

قیدی کی حالت خراب تھی‘ کپڑے گندے‘ بدبودار اور…

جو نہیں آتا اس کی قدر

’’آپ فائز کو نہیں لے کر آئے‘ میں نے کہا تھا آپ…

ویل ڈن شہباز شریف

بارہ دسمبر جمعہ کے دن ترکمانستان کے دارالحکومت…

اسے بھی اٹھا لیں

یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…