پیر‬‮ ، 21 جولائی‬‮ 2025 

یہ ہار کس کا ہے؟

datetime 27  اکتوبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ابن عقیلؒ اپنا واقعہ لکھتے ہیں کہ میں بہت ہی زیادہ غریب آدمی تھا۔ ایک مرتبہ میں نے طواف کرتے ہوئے ایک ہار دیکھا جو بڑا قیمتی تھا۔ میں نے وہ ہار اٹھا لیا۔ میرا نفس چاہتا تھا کہ میں اسے چھپا لوں لیکن میرا دل کہتا تھا، ہرگز نہیں، یہ چوری ہے، بلکہ دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ جس کا یہ ہار ہے اسے میں واپس کر دوں۔ چنانچہ میں نے مطاف میں کھڑے ہو کر اعلان کر دیا کہ اگر کسی کا ہار گم ہوا ہو تو آ کر مجھ سے لے لے۔

کہتے ہیں کہ ایک نابینا آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یہ ہار میرا ہے اور میرے تھیلے میں سے گرا ہے۔ میرے نفس نے مجھے اور بھی ملامت کی کہ ہار تو تھا بھی نابینا کا، اس کا کسی کو کیا پتہ چلنا تھا، چھپانے کا اچھا موقع تھا مگر میں نے وہ ہار اسے دے دیا۔ نابینا نے دعا دی اور چلاگیا۔ کہتے ہیں کہ میں دعائیں بھی مانگتا تھا کہ اللہ! میرے لیے کوئی رزق کا بندوبست کر دے۔ اللہ کی شان دیکھیں کہ میں وہاں سے ’’ہلہ‘‘ آ گیا۔ یہ ایک بستی کا نام ہے۔ وہاں کی ایک مسجد میں گیا تو پتہ چلا کہ چند دن پہلے امام صاحب فوت ہو گئے تھے۔ لوگوں نے مجھے کہا کہ نماز پڑھا دو۔ جب میں نے نماز پڑھائی تو انہیں میرا نماز پڑھانا اچھا لگا۔ وہ کہنے لگے، تم یہاں امام کیوں نہیں بن جاتے۔ میں نے کہا، بہت اچھا۔ میں نے وہاں امامت کے فرائض سرانجام دینے شروع کر دیے۔ تھوڑے دنوں کے بعد پتہ چلا کہ جو امام صاحب پہلے فوت ہوئے تھے ان کی ایک جواں سال بیٹی ہے۔ وہ وصیت کر گئے تھے کہ کسی نیک بندے سے اس کا نکاح کر دینا۔ مقتدی لوگوں نے مجھ سے کہا، جی اگر آپ چاہیں تو ہم اس یتیم بچی کا آپ سے نکاح کر دیتے ہیں۔ میں نے کہا، جی بہت اچھا، چنانچہ انہوں نے اس کے ساتھ میرا نکاح کر دیا۔ شادی کے کچھ عرصہ کے بعد میں نے اپنی بیوی کو دیکھا کہ اس کے گلے میں وہی ہار تھا جو میں نے طواف کے دوران ایک نابینا آدمی کو لوٹایا تھا۔ اسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔

میں نے پوچھا، یہ ہار کس کا ہے؟ اس نے کہا، یہ میرے ابو نے مجھے دیا تھا۔ میں نے کہا، آپ کے ابو کون تھے؟ اس نے کہا، وہ عالم تھے، اس مسجد میں امام تھے اور نابینا تھے۔تب مجھے پتہ چلا کہ اس کے ابو وہی تھے جن کو میں نے وہ ہار واپس کیا تھا۔ میں نے اس کو بتایا کہ یہ ہار تو میں نے ان کو اٹھا کر دیا تھا۔ وہ کہنے لگی کہ آپ کی بھی دعا قبول ہو گئی اور میرے ابو کی بھی دعا قبول ہوگئی۔ میں نے کہا، وہ کیسے؟ اس نے کہا کہ آپ کی دعا تو اس طرح قبول ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو گھر بھی دیا،

گھر والی بھی دی اور رزق بھی دیا اور میرے ابو کی دعا اس طرح قبول ہوئی کہ جب وہ ہار لے کر واپس آئے تو وہ دعا مانگتے تھے کہ اے اللہ! ایک امین (دیانت دار) شخص نے میرا ہار مجھے لوٹایا ہے، اے اللہ! ایسا ہی امین شخص میری بیٹی کے لیے خاوند کے طور پر عطا فرما دے۔ اللہ نے میرے باپ کی دعا بھی قبول کر لی اور آپ کو میرا خاوند بنا دیا۔۔ تو مخلص بندے کا کام اللہ تعالیٰ کبھی رکنے نہیں دیتے، اٹکنے نہیں دیتے بلکہ اس کی کشتی ہمیشہ کنارے لگا دیاکرتے ہیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



نیند کا ثواب


’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…