اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان کی قیادت کو علم تھا کہ ٹرمپ کی نئی حکمت سے پاکستان کو نشانہ بنایا جائے گا، تفصیلات کے مطابق پاکستان کی سول و عسکری قیادت کو بہ خوبی علم تھا کہ افغانستان کے لیے ٹرمپ کی نئی حکمت عملی سے پاکستان کو نشانہ بنایا جائے گا لیکن اس بات کی توقع ہرگز نہیں تھی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نام لے کر دھمکی دیں گے، واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر نے پاکستانیوں کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ امریکہ کو
اس بات کا جواب دینے کے لیے اپنے اتحادیوں سے بھی رابطہ کریں۔ پاکستان کے دفاع کے لیے سب سے پہلے روس سامنے آیا، روس نے افغانستان کے لیے نئی امریکی پالیسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور امریکہ کو خبردار کیا کہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہوگا اور نتیجے میں افغانستان میں بھی اس کے برے نتائج سامنے آئیں گے۔ ایک موقر انگریزی روزنامے کے مطابق ایک روز قبل چین نے بھی اسی طرح کا بیان جاری کیا لیکن وہ پاکستان کے ساتھ اپنے دیرینہ سٹریٹجک تعلقات کی وجہ سے ناگزیر تھا۔ دفتر خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ روس کو اس صورتحال میں اپنے آپ کو الگ کرنا پاکستان کی بڑی کامیابی ہے، صدر ٹرمپ کی طرف سے افغان حکمت عملی سے متعلق امریکی صدر کے اعلان کے فوری بعد پاکستان نے روس سے رابطہ کیا اور سفارتی ذرائع سے آگاہ کیا کہ پاکستان کو اس نازک موقع پر آپ کی مدد ضرورت ہے۔ پاکستان کی درخواست پر روس نے حمایت کی حامی بھر لی جس سے دونوں ممالک کے درمیان بے مثال تعلقات کی عکاسی ہوتی ہے۔ امریکی صدر کے افغانستان پر نئی حکمت عملی کے اعلان کے دو دن بعد روسی صدر کی طرف سے افغانستان کے نمائندہ خصوصی ضمیر قبولو نے افغان مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو خطے کا اہم کھلاڑی قرار دیا تھا۔
پاکستان کا امریکہ کو سفارتی سطح پر جواب دینے کے لیے خطے کے ممالک کو اعتماد میں لینے کے لیے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے چین، ایران اور ترکی کا دورہ کیا اس کے علاوہ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ یہ دورے مثبت رہے اور واضح کیا کہ افغان مسئلے کا حل فوجی طاقت کا استعمال نہیں بلکہ سیاسی مذاکرات ہیں۔ اس کے علاوہ رواں ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستان کے وزیرخارجہ خواجہ آصف کی روسی ہم منصب سے ملاقات بھی طے ہے۔