اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سائنس کی ترقی کی بدولت کائنات کے لاکھوں رازوں سے پردہ اٹھ چکا ہے تاہم وہ پہلو جو تاحال سائنس دانوں کیلئے معمہ ہیں ، ان کی فہرست ان آشکار حقائق سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ایسا ہی ایک موضوع جو گزشتہ ایک دہائی سے ماہرین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے،پراسرار ریڈیو ویوز ہیں جن کی آسمان پر موجودگی کا سائنسی ماہرین نے بارہا مشاہدہ کیا ہے۔یہ شعائیں بلاترتیب فضا میں سفر نہیں کرتیں بلکہ ہر بار یہ کسی خاص جیومیٹریکل پیٹرن پر سفر کرتی دیکھی گئی ہیں۔ ان شعاﺅں کی موجودگی سے دو ہی طرح کے مفروضے قائم کئے جاسکتے ہیں۔ کائنات میں موجود کوئی اور قوت بھی اپنی ٹیکنالوجی کی مدد سے اہل زمین کے نام کوئی خاص پیغام یا رابطے کی کوشش میں ہے یا پھر یہ کہ شعائیں انسانی کارنامہ ہیں۔ اگر یہ انسانی کارنامہ ہیں تو یہ ان ممالک کیلئے خطرہ قرار دی جاسکتی ہیں جن کے قریب ان کو دیکھا گیا کیونکہ عین ممکن ہے کہ یہ کسی ایسے جاسوسی پر معمورسیارے خارج ہونے والی شعائیں ہوں۔
ٹیلی سکوپس2001سے ان شعاﺅں کو محسوس کررہے ہیں۔ ان کو ایف آر بیز یعنی کہ فاسٹ ریڈیو برسٹس کا نام دیا گیا ہے۔ ملی سیکنڈز کے لئے باقی رہنے والی ان شعاﺅں سے خارج ہونے والی توانائی کی مقدار اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ یہ سورج سے ایک ماہ کے اندر خارج ہونے والی توانائی کے برابر ہوتی ہے۔گزشتہ 14برس کے بیچ ان شعاﺅں کا دس بار مشاہدہ کیا گیا ہے۔ آخری بار آسٹریلیا کے نیو ساﺅتھ ویلز میں واقع پارکس سیٹیلائٹ نے اس شعاع کا نظر کیا اور اس منظر کو اپنے کیمرے کے لینس سے محفوظ کیا۔ دیگر کے بارے میں ٹیلی سکوپس کے زمین واپسی پر ان میں موجود ڈیٹا کے تجزیہ سے معلوم ہوا تھا۔
ان شعاﺅں کے اخراج کا منبع تاحال سائنس دانوں کیلئے معمہ بنا ہوا ہے تاہم انہیں اس امر کا تو سو فیصد یقین ہے کہ یہ کسی بھی ستارے سے خارج ہونے والی شعاع ہرگز نہیں ۔ اس کی وجہ ان کا اختصار ہے۔ اسی بنا پر ماہرین کا خیال ہے کہ ان شعاﺅں کا باعث بننے والی قوت زیادہ سے زیادہ سینکڑوں کلو میٹر لمبی ہوسکتی ہے تاہم اس سے زیادہ بڑی ہر گز نہیں۔ خیال ہے کہ یہ شعائیں کائنات کے باہر کہیں دور پرے سے آتی ہیں۔کائنات سے دور، سائنسدانوں کی نگاہوں اور ٹیکنالوجی کے مشاہدے سے محفوظ وہ قوت کیا ہے، یہ ماہرین کیلئے کسی معمے سے کم نہیں ہے۔ان شعاﺅں کو سب سے زیادہ عجیب بنانے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اخراج کا جو پترن سامنے آیا ہے جو وہ کاسمک فزکس سے بھی میل نہیں کھاتا ہے البتہ دس میں سے ہر ایک بار ان شعاﺅں کا پھیلاﺅ187.5کے ملٹیپل کے قریب قریب کا رہا ہے۔ کائنات میں موجود کوئی بھی قدرتی عمل اس کی تشریح کرنے سے قاصر ہے۔ ماہرین کی رائے میں دس ہزار میں سے پانچ کی شرح سے ہی یہ ممکن ہے کہ ان شعاﺅں کے اخراج اور اس عمل میں خارج ہونے والے الیکٹرونز کے پھیلاﺅ اور بننے والی فریکوئنسی کا ملٹیپل ہر بار ایک ہی عدد یعنی کہ187.5بننا ایک اتفاق ہو۔کچھ خاص طرح کے ستارے بھی پھٹنے کے نتیجے میں ریڈیو ویوز خارج کرنے کا باعث بن سکتے ہیں تاہم ان ریڈیو ویوز کے اخراج میں جو خاص تناسب دیکھا گیا ہے ، وہ ستاروں کے پھٹنے کے عمل میں ممکن نہیں ہے۔جہاں تک خلائی مخلوق کی جانب سے ایسا کوئی پیغام نشر کئے جانے کا تعلق ہے تو یہ ان کی ٹیکنالوجی کے انسانی ٹیکنالوجی سے بے حد ترقی یافتہ ہونے کا ثبوت ہے کیونکہ ایک ایف آر بی کو بطور پیغام نشر کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی کے مورا مک لافلن کہتے ہیں کہ کسی ایسے سگنل کو نشر کرنا جو کہ بیک وقت متعدد فریکوئنسیز پر پکڑا جاسکے ، بے تحاشہ مشکل ہے، اس کی مشکل کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی ایک ریڈیو سٹیشن صرف ایک فریکوئنسی پر نشر کئے جانے کے لائق سگنل چھوڑتا ہے۔اگر اس کو کائنات سے باہر موجود کسی قوت کی جانب سے خارج کی جانے والی کسی قوت کا کارنامہ سمجھا جائے تو اس قدر دور سے اس قدر طاقتور اخراج کیلئے ناقابل یقین حد تک طاقتور توانائی کی ضرورت ہوگی۔ مک لافلن دیگر سائنسدانوں کے اس نظرئے کو رد کرتے ہیں کہ یہ کسی ملکی وے سے آنے والی توانائی کی لہریں ہیں۔ان پراسرار ریڈیو ویوز کی حقیقت تو شائد آنے والے دنوں میں ہی کھل پائے تاہم یہ اس امر کی جانب ایک اور واضح نشانی ہے کہ انسان اپنی محدودقوت کی بنا پر آج بھی تسخیر کائنات کے سفر میں ابتدائی مراحل میں ہی کھڑا ہے۔
پراسرار ریڈیو ویوز؛ کیا خلائی مخلوق اہل زمین کو کوئی پیغام بھیجنا چاہتی ہے؟
7
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں