جمعہ‬‮ ، 28 فروری‬‮ 2025 

ایک ہی راستہ بچا ہے

datetime 28  جنوری‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘ افغانستان میں ان دنوں امریکا کا آپریشن چل رہا تھا‘ نیٹو فورسز نے 2001ء میں افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا لیکن اس کے باوجود ملک کے مختلف حصوں میں طالبان قابض تھے اور امریکا انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ختم کر رہا تھا‘ جنرل احسان الحق کو طالبان کے سلسلے میں2003ء میں امریکا کی دعوت دی گئی ‘ سرکاری مصروفیات کے دوران انہیں ایک دن سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر بلایا گیا‘

ان کے ساتھ پاکستانی سفارت خانے کا ایک افسر بھی تھا‘ ہیڈکوارٹر میں انہیں ایک تھیٹر قسم کی جگہ لے جایا گیا‘ دیوار کے ساتھ کرسیاں تھیں جب کہ سامنے سمارٹ ورک سٹیشن تھے اور ان کے سامنے بڑی بڑی سکرینیں تھیں‘ ورک سٹیشنز پر نوجوان لڑکے لڑکیاں بیٹھے تھے‘ جنرل احسان الحق اور نوجوان سفارت کار کو دیوار کے ساتھ کرسیوں پربٹھا دیا گیا‘ انہوں نے اپنے میزبان سے اس جگہ کے بارے میں پوچھا تو انہیں بتایا گیا آپ بس چند منٹ دے دیں آپ کو سب کچھ سمجھ آ جائے گا‘ یہ دونوں خاموش بیٹھ گئے‘ سکرینز پر مختلف مناظر آتے اور جاتے رہے‘ کسی جگہ چراہ گاہیں تھیں‘ کسی جگہ ندیاں‘ نالے اور دریا تھے اور کسی جگہ خشک بے آباد پہاڑ تھے‘ یہ سکرینیں دیکھتے رہے ‘ اس دوران ایک سکرین پر دو خشک پہاڑوں کے درمیان چھوٹی سی وادی نظر آئی‘ ورک سٹیشنز پر بیٹھے نوجوانوں نے میز پر لگی ناب گھمائی اور تھیٹر کی تمام سکرینوں پر وادی نظر آنے لگی‘

اس کے بعد تمام سکرینیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑگئیں اور کیمرہ وادی پر فوکس کرتا چلا گیا‘ تھوڑی دیر بعد وادی کا ایک مکان نظر آنے لگا‘ کیمرے نے اسے فوکس کیا تو مکان میں موجود لوگ دکھائی دینے لگے‘ صحن میں چار رائفل بردار لوگ واک کر رہے تھے‘ دو لوگ مکان کی چھت پر پہرہ دے رہے تھے‘ ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوفیں تھیں‘ وہ شام کا وقت تھا‘ سورج پہاڑوں میں چھپ رہا تھا‘ کیمرہ وادی کا جائزہ لیتا تھا اور پھر دوبارہ اس مکان پر فوکس کر لیتا تھا‘ اس دوران چھت پر کھڑے پہرہ داروں میں سے ایک نے کلاشنکوف زمین پر رکھی‘ مکان کے کونے میں آیا‘ پہاڑ کی طرف منہ کیا‘ کانوں پر ہاتھ رکھا اور اونچی آواز میں صدائیں دینے لگا‘ اس کی آواز نہیں آ رہی تھی لیکن جنرل احسان الحق کو اندازہ ہو رہا تھا وہ اذان دے رہا ہے‘ اذان کے بعد مؤذن نیچے اترا‘ مکان کے اندر سے لوگ نکلے‘ صحن میں صفیں بچھائیں اور نماز شروع کر دی جب کہ دوسرا پہرے دار چھت پر کھڑا ہو کر ان کی حفاظت کرتا رہا‘ ورک سٹیشنز پر بیٹھے نوجوان نے مائیک میں کچھ کہنا شروع کر دیا‘ وہ ساتھ ساتھ ناب گھما کر مکان کو فوکس بھی کر رہا تھا‘

ایک پوائنٹ پر آ کر اس نے الٹی گنتی گننا شروع کی اور زیرو پر پہنچ کر ٹیبل پر موجود سرخ بٹن دبا دیا‘ سکرین پر خوف ناک دھماکا ہوا اور وہ مکان اپنے تمام مکینوں سمیت صفحہ ہستی سے مٹ گیا‘ سکرینوں پر دھوئیں اور گرد کے سوا کچھ نہیں تھا‘ کیمرہ تھوڑی دیر دھوئیں اور گرد پر فوکس رہا اور پھر آہستہ آہستہ اوپر اٹھ گیا‘ اب پوری وادی نظر آ رہی تھی‘ لوگ مختلف گھروں سے نکل کر ملبے کی طرف دوڑرہے تھے‘ جنرل احسان اور نوجوان سفارت کار دونوں حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔

جنرل احسان کو بعدازاں ڈائریکٹر کے پاس لے جایا گیا‘ اس نے انہیں بتایا‘ یہ ڈرون تھا‘ ہم نے ایک ایسی ٹیکنالوجی ڈویلپ کر لی ہے جس کے ذریعے ہمیں اب کسی مقام کو نشانہ بنانے کے لیے لوگ بھجوانا پڑتے ہیں اور نہ جہاز‘ ہم آسمان سے ٹارگٹ کو فوکس کرتے ہیں‘ ہمارے ڈرون وہاں پہنچتے ہیں اور ہم واشنگٹن سے بٹن دبا کرٹارگٹ اڑا دیتے ہیں‘ یہ جنرل احسان اور نوجوان سفارت کار دونوں کے لیے نئی چیز تھی‘ دونوں بڑی دیر تک حیران رہے‘ انہیں بتایا گیا اس ڈرون کا نام پری ڈیٹر (Predator) ہے اور اسے اڑانے‘ فائر کرنے اور واپس اتارنے کے لیے کسی شخص کی ضرورت نہیں ہوتی‘ یہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے آپریٹ ہوتے ہیں‘ ہمیں بس انہیں اڑانے اور اتارنے کے لیے ٹارگٹ کے قریب ’’ائیرسٹرپس‘‘ چاہیے ہوتی ہیں اور یہ بھی چند برسوں کی بات ہے‘

ہم پانچ سال میں انہیں امریکا سے اڑائیں گے اور امریکا ہی میں لینڈ کرا دیں گے‘ یہ پلان اس وقت عجیب محسوس ہوتا تھا‘ ہم اس زمانے میں لوڈ شیڈنگ کے عذاب کا شکار تھے‘ آٹھ آٹھ گھنٹے بجلی بند رہتی تھی جب کہ امریکا جنگوں اور فوج کے اگلے مرحلے میں داخل ہو رہا تھا‘ ایک ایسا مرحلہ جس میں اسے فوجی چاہیے تھے اور نہ ہی پائلٹ‘ اس کی فوج امریکا میں بیٹھ کر پوری دنیا میں بمباری کرسکتی تھی اور گرائونڈ سولجر کے بغیر دوسرے ملکوں کو فتح کر رہی تھی‘ بہرحال قصہ مختصر جنرل احسان نئی حیرت لے کر پاکستان واپس آئے اور جنرل پرویز مشرف اور اس وقت کی فوجی قیادت کو نئی تکنیک کے بارے میں بتایا‘ اس زمانے کی قیادت کو یہ ہالی ووڈ کی فلم کا سین محسوس ہوا‘ افسروں کا خیال تھاسی آئی اے نے ڈی جی آئی ایس آئی کو پریشان کرنے یا ان کا مورال ڈائون کرنے کے لیے ایڈیٹنگ کا کوئی کمال دکھایا ہو گا‘ امریکی فلم بنا اور دکھا کر ہمیں متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں چناں چہ فیصلہ ہوا سی آئی اے نے جس گھر کو میزائل سے تباہ کیا اس جگہ اور مکان کا معائنہ کیا جائے‘ پاکستان کی ایک ٹیم چھپا کر افغانستان بھجوا دی گئی‘

سی آئی اے نے کنڑ کی ایچ ویلی میں مکان کو نشانہ بنایا تھا‘ کنڑ اس زمانے میں بھی حقانیوں کے قبضے میں تھا‘ یہ ایک دشوار گزار علاقہ تھا جہاں پہاڑوں نے امریکی ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کا راستہ روک رکھا تھا جب کہ تنگ دروں اور ندی نالوں کی وجہ سے گرائونڈ ٹروپس بھی وہاں پہنچ نہیں پا رہے تھے لہٰذا طالبان کنڑ میں پناہ گزین ہو گئے تھے‘ ہماری ٹیم جیسے تیسے وہاں پہنچی‘ واپس آئی اور اس نے آ کر تصدیق کر دی وہ مکان واقعی ایچ ویلی میں تھا اور امریکی میزائل حملے میں مکمل ختم ہو گیا تھا‘ اس تصدیق سے ہماری اسٹیبلشمنٹ کو 2003ء میں معلوم ہو گیا امریکا اگلے چار پانچ برسوں میں پاکستان کی محتاجی سے آزاد ہو جائے گا‘ یہ صرف اس وقت تک ہمارے ساتھ چلے گا جب تک اس کے ڈرون کی کیپسٹی میں اتنا اضافہ نہیں ہو جاتا کہ یہ امریکا سے اڑ سکیں اور واپس امریکا ہی میں لینڈ کر جائیں‘

دوسرا اسٹیبلشمنٹ کا اندازہ تھا امریکا کو آخری مرتبہ ہماری اس وقت ضرورت پڑے گی جب یہ افغانستان سے واپس جائے گا اور اس کے بعد پاکستان اس کے لیے غیر ضروری ہو جائے گا لہٰذا ہمارے پاس امریکا کی واپسی تک کا وقت ہے‘ ہم نے اس وقت کے دوران اپنے آپ کو معاشی لحاظ سے مضبوط کرنا ہے‘ ہم نے اگر یہ وقت ضائع کر دیا تو پھر ہمیں دوبارہ موقع نہیں ملے گا‘ تیسرا یہ فیصلہ بھی ہوا ہمیں امریکا کی واپسی سے پہلے علاقائی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات بھی بہتر بنا لینے چاہییں‘ بھارت کے ساتھ مسائل کا دیرپا حل نکالیں‘ چین اور روس کے ساتھ تعلقات ٹھیک کریں‘ عربوں کے ساتھ دوستی میں اضافہ کریں اور اپنے آپ کو معاشی لحاظ سے مضبوط کریں۔

یہ فیصلے درست اور دیرپا تھے‘ جنرل مشرف نے اپنے دور میں ان پر بہت کام کیا‘ بھارت کے ساتھ سرحدیں کھول دیں اور کشمیر کے دیرپا اور مستقل حل کی طرف بھی نکل آئے‘ چین کے ساتھ تعلقات بڑھا دیے‘ روس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا اور ملک میں معیشت کا پہیہ بھی پوری طاقت سے گھومنے لگا‘ یہ سلسلہ اگر 2010ء تک جاری رہتا تو پاکستان خطرے کی تمام لائینوں سے آگے نکل جاتا لیکن بدقسمتی سے پاکستان کو نظر لگ گئی اور ہم نے ایک بار پھر واپسی کی طرف دوڑ لگا دی‘ اس دوران نئی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کا تجربہ بھی شروع کر دیا اور یہ تجربہ ٹوٹے ہوئے دانت پر آئس کریم ثابت ہوا‘ اس نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا اور وہ وقت بھی ضائع کر دیا جس میں ہم نے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا تھا‘

ہم اس قیمتی وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے رہ گئے اور امریکا طالبان کو ہمارے متھے مار کر اگست 2021ء میں افغانستان سے نکل گیا اور اس کے جاتے ہی ہماری ساری معیشت زمین بوس ہو گئی‘ ہم اس دوران امریکا کے لیے اتنے غیر اہم بھی ہو گئے کہ جوبائیڈن نے اپنے چار برسوں میں ہمارے وزیراعظم کو فون کیا اور نہ ہماری مبارک باد وصول کی‘ اس نے پاکستان کو اپنے فوجی کمانڈرزکے حوالے کر دیا‘ یہ آتے رہے اور اپنے کام نکلواتے رہے‘ جوبائیڈن کے چار برسوں میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن بھی پاکستان نہیں آیا‘ بائیڈن کے بعد 20 جنوری 2025ء کو ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مرتبہ صدر بنا تو اس نے ہمارے کسی لیڈر کو دعوت دی اور نہ ہی پاکستان کا نام لیا‘

ہم آج بھی یہ امید لگا کر بیٹھے ہیں ٹرمپ عمران خان کا نام لے کر کوئی ٹویٹ ہی کر دے اور اس کے بعد ہمارا اپنے پرانے اتحادی سے رابطہ استوار ہو جائے لیکن یہ بھی نہیں ہو رہا‘ کیوں نہیں ہو رہا؟ اس کی صرف ایک وجہ ہے‘ امریکا وار ٹیکنالوجی میں اتنا آگے بڑھ گیا ہے کہ اسے اب پاکستان جیسے کسی اڈے کی ضرورت نہیں رہی‘ اسے اگر افغانستان پر دوبارہ حملہ کرنا پڑا تو یہ میامی سے کرے گا اور بات ختم‘ ہم نے اپنے 20 قیمتی سال ضائع کر دیے ہیں‘ ہمارے لیے بہتر ہے ہم اب اس حقیقت کو مان لیں اور امریکا کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا شروع کردیں‘ سسٹم کی خرابیاں دور کریں‘ ہمسایوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک کریں‘ لڑائیاں بند کریں‘ ملک ریاض جیسے بزنس مینوں کے ساتھ فائنل ڈیل کریں‘ سیاسی افہام و تفہیم پیدا کریں اور آئین میں جتنی بھی تبدیلیاں کرنی ہیں ایک ہی بار کر لیں اور اس کے بعد پوری قوم کو کام پر لگا دیں اور دائیں بائیں نہ دیکھیں‘ ہمارے پاس اب صرف یہی ایک راستہ بچا ہے اور ہم نے اگر اسے بھی بند کر دیا تو پھر شاید ہمارے لیے کوئی نیا راستہ نہ بچے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



نارمل ملک


حکیم بابر میرے پرانے دوست ہیں‘ میرے ایک بزرگ…

وہ بے چاری بھوک سے مر گئی

آپ اگر اسلام آباد لاہور موٹروے سے چکوال انٹرچینج…

ازبکستان (مجموعی طور پر)

ازبکستان کے لوگ معاشی لحاظ سے غریب ہیں‘ کرنسی…

بخارا کا آدھا چاند

رات بارہ بجے بخارا کے آسمان پر آدھا چاند ٹنکا…

سمرقند

ازبکستان کے پاس اگر کچھ نہ ہوتا تو بھی اس کی شہرت‘…

ایک بار پھر ازبکستان میں

تاشقند سے میرا پہلا تعارف پاکستانی تاریخ کی کتابوں…

بے ایمان لوگ

جورا (Jura) سوئٹزر لینڈ کے 26 کینٹن میں چھوٹا سا کینٹن…

صرف 12 لوگ

عمران خان کے زمانے میں جنرل باجوہ اور وزیراعظم…

ابو پچاس روپے ہیں

’’تم نے ابھی صبح تو ہزار روپے لیے تھے‘ اب دوبارہ…

ہم انسان ہی نہیں ہیں

یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون…

رانگ ٹرن

رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…