منگل‬‮ ، 14 جنوری‬‮ 2025 

افغانستان کے حالات

datetime 14  جنوری‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا اور ایران میں سامانیان(Samanid) کے نام سے ایک بڑی سلطنت تھی‘ افغانستان کا علاقہ غزنی بھی اس سلطنت کا حصہ تھا‘ غزنی کا گورنر الپتگین تھا‘ وہ ترک غلام تھا‘ بادشاہ کے قریب تھا لہٰذا بادشاہ نے اسے غزنی کا کمانڈر اور بعدازاں گورنر بنا دیا‘ الپتگین کے پاس ناصرالدین سبکتگین نام کا ایک ترک غلام تھا‘ گورنر نے اسے رائل گارڈ بنا دیا‘ وہ بہادر‘ زیرک اور سمجھ دار تھا‘ اس نے آہستہ آہستہ گورنر کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے اور آخر میں غزنہ کے نام سے آزاد ریاست قائم کر لی‘ سامانی ریاست کم زور ہوئی تو سبکتگین نے غزنہ ریاست کا رقبہ بڑھا لیااور وہ آج کے ازبکستان‘ ایران اور ہندوستان کے سرحدی علاقوں پر قابض ہو گیا‘ محمود غزنوی اس سبکتگین کا بیٹا تھا‘

یہ درست ہے محمود غزنوی 971ء میں غزنی میں پیدا ہوا لیکن وہ ترک باپ کابیٹا تھا چناں چہ محمود غزنوی افغانی نہیں ترک تھا اوراس ترک بادشاہ نے ہندوستان پر 17حملے کیے اور ان حملوں کا مقصد اپنی سلطنت کو وسعت دینا تھا‘ افغان ریجن کا دوسرا اہم کردار شہاب الدین غوری تھا‘اس نے غورستان کے نام سے غوری سلطنت قائم کی اور وہ بھی پوری زندگی ہندوستان پر حملہ آور ہوتا رہا‘ اب سوال یہ ہے کیا شہاب الدین غوری افغان تھا؟ جی نہیں وہ ایرانی تھا اور اس نے اپنے زمانے میں آج کے افغانستان پر بھی اسی طرح حکومت کی جس طرح وہ بنگلہ دیش‘ایران‘شمالی انڈیا‘ پاکستان‘ تاجکستان اور ترکستان پر قابض رہا‘ آج کے ماڈرن افغانستان کی بنیاد احمد شاہ ابدالی (درانی) نے 1747ء میں رکھی تھی‘ وہ ملتان میں پیدا ہوا تھااور وہ پشتون تھا‘ہم بہرحال اس لحاظ سے اسے افغانی پشتون کہہ سکتے ہیں‘اس سے قبل افغانستان پر تین سو سال مغلوں نے حکومت کی اور وہ ازبک تھے اور ہم اگر اس میں تاتاریوں کو بھی شامل کر لیں تو افغانستان دو اڑھائی سو سال چنگیز خان اور ہلاکو خان کی اولاد کے قبضے میں بھی رہا اور ہ لوگ منگولیا کے رہنے والے تھے چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں افغان آج جن واریئرز اور کمانڈرز کی مثالیں دے کرپاکستان کوللکار رہے ہیں ان میں سے کسی کا تعلق بھی افغانستان کے ساتھ نہیں تھا‘

وہ بھی افغانستان پر اسی طرح قابض رہے جس طرح روسی اور امریکی رہے اور وہ بھی افغانوں کی بے مروتی‘ پیسے کی حرص‘ بے وفائی اور ضد کی وجہ سے انہیں اسی طرح چھوڑ گئے جس طرح برطانوی‘ امریکی اور روسیوں نے چھوڑ دیا‘ میں نے پچھلے دنوں افغانستان کے ایک نائب وزیرکی گفتگوسنی‘ وہ پاکستان کو دھمکی دے رہا تھا ‘تم نے جس غزنوی‘ غوری اور ابدالی کے نام پر میزائل بنائے ہیں‘وہ سب افغان تھے اور ہمارے پاس آج بھی لاکھوں کی تعداد میں ابدالی‘ غوری اور غزنوی موجود ہیں‘ ہم نے اگر ان میں سے چند کو چھوڑ دیا تو وہ تمہارے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو ہم تاریخ میں کیاکرتے تھے‘ میں یہ سن کر ہنس پڑا‘ کیوں؟ کیوں کہ وہ جن لوگوں کا نام لے رہا تھا وہ سب سنٹرل ایشین تھے اور انہوں نے نہ صرف ہندوستان پرحملے اور قبضے کیے تھے بلکہ وہ افغانستان پر بھی قابض رہے تھے اورماضی کاافغانستان بھی ان سے اتنا ہی تنگ تھا جتنا ہندوستان۔

آج کا سب سے بڑا سوال یہ ہے افغان یا طالبان پاکستان کے خلاف کیوں ہیں؟ اس کی تین بڑی وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ احسان فراموشی ہے‘ افغانیوں کا ڈی این اے ہی احسان فراموشی سے بنا ہوا ہے‘ آپ ماضی کو چھوڑ دیجیے اور آج کی مثال لیجیے‘ طالبان حکومت کے تمام اہم لوگ 20 سال پاکستان کی پناہ میں رہے اور ان کی حفاظت کے لیے پاکستان نے جتنا دبائو برداشت کیا وہ ایک ناقابل یقین کہانی ہے‘ پاکستان نے پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود طالبان کی شوریٰ کے 25 ارکان کو اپنے پاس محفوظ رکھا‘ آج کی افغان حکومت کے 34 گورنر‘ طالبان کی شیڈو گورنمنٹ کے 16 وزراء اور طالبان فوج کے 500 کمانڈرز پاکستان کے پاس رہے‘ پاکستان نے طالبان کے 54 ہزار زخمیوں کا علاج بھی کیا‘ یہ سلسلہ 21سال چلا اور اس دوران پاکستان نے ان کو رقم بھی دی‘ رہائش گاہیں بھی‘ راشن بھی اور سیکورٹی بھی‘ 2018ء میں جب دوہامیں مذاکرات شروع ہوئے تو 165 ملاقاتیں ہوئیں اور ان لوگوں کو پاکستان اپنے اخراجات پر قطر لے جاتا اور ان کی میٹنگز کراتا رہااور طالبان حکومت کے آج کے تمام وزراء پاکستان میں پیدا ہوئے اور انہوں نے پاکستانی اداروں اور مدارس میں تعلیم حاصل کی لیکن آج یہ پاکستان کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے پاکستان پر حملے بھی کر رہے ہیں‘ میں اسے افغانوں کا کریکٹر کہتا ہوں جب کہ ہمارے بزرگ اور استاد مفتی عبدالرحیم کا دعویٰ ہے اس کے پیچھے امریکی اور بھارتی ہیں‘ امریکا نے طالبان سے 2013ء میں دوہا میں دفتر کھلوایا تھا‘

طالبان دس سال دوہا میں آتے جاتے رہے‘ انہیں ایک خاص ہوٹل میں ٹھہرایا جاتا تھا‘ ان دس برسوں میں امریکیوں نے ان کی تمام کالز بھی ریکارڈ کیں اور ای میل بھی‘ ان کے فون بھی ہیک ہوئے اور ان کی عادتوں کا مطالعہ بھی کیا گیا چناں چہ دس برس میں امریکا ان کے تمام رشتے داروں‘ جائیدادوں اور اکائونٹس تک پہنچ گیا اور ان کی عادتیں اور کم زوریاں بھی بھانپ گیا‘ بھارت کی را بھی اس دوران دوہا میں ان سے رابطے میں رہی‘ پاکستان صرف ان کے نخرے اٹھاتا رہا جب کہ یہ بھارت اور امریکا کی گود میں کھیلتے رہے‘ پاکستان نے 2021ء میں ان کا امریکا سے معاہدہ کرایا لیکن یہ ایک اوپن ایگریمنٹ تھا جب کہ ان کا امریکا کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ بھی ہوا‘ اس معاہدے میں ٹی ٹی پی کو قائم رکھنا اور پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شامل تھا اور طالبان تین برسوں سے یہ کام کر رہے ہیں‘ امریکا اس کے بدلے انہیں ہر سال چھ بلین ڈالر دیتا ہے‘ افغانستان کا کل بجٹ دو ارب 60 کروڑ ڈالر ہے‘ اتنی چھوٹی سی اکانومی میں چھ ارب ڈالر ہر سال اضافی پمپ کر دیا جاتا ہے‘ یہ رقم طالبان کو کیوں مل رہی ہے اور یہ کس کی جیب میں جاتی ہے؟ یہ سوال ہمیں طالبان سے پوچھنا چاہیے تھا‘ بھارت کے ساتھ بھی طالبان کا ایسا ہی تعلق ہے‘ طالبان کے ایک وزیر سے ہمارے ایک دوست نے پوچھا ’’ہم نے چالیس سال آپ کی خدمت کی‘ ہم نے اس خدمت میں پورا ملک برباد کرا لیا لیکن آپ آج بھارت کی گود میں بیٹھ رہے ہیں‘ آخر کیوں؟‘‘ افغان وزیر نے ہنس کر جواب دیا ’’ہمارے پاس جب پاکستانی آتے ہیں تو ان کے بریف کیسوں سے مشورے نکلتے ہیں جب کہ بھارتی لوگ بریف کیسوں میں نوٹ بھر کر لاتے ہیں لہٰذا تم خود بتائو ہم تمہاری بات سنیں یا بھارت کی!‘‘ یہ ہے افغان طالبان کا ڈی این اے‘ یہ پیسے کی آواز سنتے ہیں اور صرف اسی پر ان کے کان کھڑے ہوتے ہیں۔

افغانستان کے اندر ایک اور ایشو بھی ہے‘طالبان دو حصوں میں تقسیم ہیں‘ قندہاری اور حقانی گروپ‘ افغانستان کو فتح حقانی گروپ نے کیا تھا‘ یہ قندہاریوں کی نسبتاً پاکستان کے زیادہ قریب ہیں‘ دوسری طرف قندہاری ہیں‘ ان دونوں کے درمیان اختیارات کی جنگ چل رہی ہے‘ ملا عمر کے زمانے میں حقانیوں کو بے اختیار رکھا گیا تھا‘ 2021ء کے بعد سراج الدین حقانی کو وزارت داخلہ ملی اور یہ انتہائی تگڑی وزارت ہے لیکن اب امیرالمومنین ہیبت اللہ اخواندزادہ نے سراج الدین حقانی کے اختیارات کم کرنا شروع کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں قندہاری گروپ کے سربراہ ملایعقوب مضبوط ہوتے چلے جا رہے ہیں‘ یہ اس وقت وزیر دفاع ہیں اور ان کے بھارت اور را کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں‘ افغانستان میں اب ہر دوسرا شخص یہ کہہ رہا ہے بھارت ملا یعقوب کو مسلسل پیسے دے رہا ہے اور ملا یعقوب انہیں زیادہ سے زیادہ سہولتیں لہٰذا وہ وقت دور نہیں جب بھارت افغانستان میں اشرف غنی کے زمانے کے تمام قونصل خانے کھول لے گا اور کابل اور قندہار میں بیٹھ کر پاکستان کو نقصان پہنچائے گا‘ سراج الدین حقانی کے چچا حاجی خلیل حقانی کو11دسمبر2024ء کوکابل میں قتل کر دیا گیا تھا‘ وہ انتہائی زیرک اور بہادر انسان تھا‘ وہ قبائلی سیاست کو بھی سمجھتا تھا‘ ملکی سیاست کو بھی اور پاکستان کا بھی دل سے خیرخواہ تھا اور یہ خوبیاں اس کی جان لے گئیں‘ حقانیوں کا خیال ہے حاجی خلیل حقانی کو بھارت نے قتل کرایا کیوں کہ وہ بھارتی عزائم کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ تھا۔

ہم اب آتے ہیں اس بنیادی سوال کی طرف ’’کیا پاکستان افغانستان کو کنٹرول نہیں کر سکے گا؟‘‘ اس کا سیدھا سادا جواب ہے دنیا میں اگر کوئی ملک افغانستان کا ایکسپرٹ ہے تو اس کا نام پاکستان ہے‘ پاکستان نہ صرف افغانوں کے تمام قبائل کو جانتا ہے بلکہ یہ ان کی نسلوں‘ زبانوں اور مذہبی اختلافات تک سے واقف ہے‘ پاکستانی آج بھی ان کے تمام گروہوں سے رابطے میں ہیں‘ افغانوں نے اگر سوویت یونین کو شکست دی تھی یا امریکا 20سال بعد افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہو گیا تو اس کا سارا کریڈٹ پاکستان کو جاتا ہے‘ پاکستان نہ ہوتا تو سوویت یونین آج تک افغانستان کو ریت کا ٹیلہ بنا چکا ہوتا اور اگر پاکستان افغانوں کی مدد نہ کرتا‘ یہ طالبان کو زندہ نہ رکھتا تو آج یہ ملک امریکا کی 51ویں ریاست ہوتا‘ افغانوں کی اہلیت کی یہ حالت ہے یہ 1992ء میں روس کے جانے کے بعد چاربرسوں میں لڑ لڑ کر مر گئے تھے‘ یہ کوئی متفقہ حکومت نہیں بنا سکے تھے اور یہ 2001ء میں صرف 35 دنوں میں امریکا کے سامنے ہتھیار پھینک کر فرار ہو گئے تھے‘ افغانستان انسانی تاریخ کا پہلا ملک تھا جو زمینی فوجوں کے بغیر فتح ہو گیا تھا‘ امریکی فوج 2001ء میں طالبان کے فرار کے بعد افغانستان میں داخل ہوئی تھی لہٰذا اگر پاکستان چاہے تو یہ ایک ہفتے میں طالبان حکومت کو پیک کر دے گا لیکن پاکستان اب بھی افغانوں کو رعایتی نمبر دے گا‘ یہ نہیں چاہتا یہ اپنے ہی بت اپنے ہاتھ سے توڑ دے لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے افغان شاید پاکستان کی اس محبت کو اس کی کم زوری سمجھتے ہیں لہٰذا یہ دو ماہ میں کچھ نہ کچھ ایسا کر کے رہیں گے جس کے بعد پاکستان کو مجبوراً اپنی پالیسی تبدیل کرنا پڑے گی اور اس کے نتیجے میںڈیورنڈ لائین کی دوسری طرف کوئی غزنوی بچے گا اور نہ ابدالی۔

موضوعات:



کالم



افغانستان کے حالات


آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…