اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) شریف خاندان کی طرف سے پاناما کیس کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے جمع کرائی گئی اپیلوں کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے مسترد کر دیا، تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد شریف خاندان کے لیے اب قانون کے مطابق اپیل کا کوئی راستہ نہیں رہا ہے اب صرف ایک ہی راستہ ہے کہ آئین میں تبدیلی کی جائے، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف،
اُن کے بچوں، داماد اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پاناما لیکس کے فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی کی تمام درخواستوں کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ انہیں اس فیصلے سے سخت مایوسی ہوئی ہے مگر پھر بھی ہم عدالت کے اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد سپریم کورٹ بار کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ شریف خاندان کا آئینی حق تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کر سکتے تھے مگر اب ان کے پاس اپیل کا کوئی راستہ نہیں بچا ہے، انہوں نے کہا کہ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ شریف خاندان احتساب عدالت میں جائے اور مقدمات کا سامنا کرے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس فیصلے کو غیر موثر کرنے کے لیے دستور میں ترمیم ہو سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو شاید کچھ فائدہ ہو سکے مگر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے پاس اس وقت دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے معاون خصوصی برائے قانون و انصاف بیرسٹر ظفر اللہ خان نے کہا کہ اُن کی جماعت نے استدعا کی تھی کہ نواز شریف کی نا اہلی کی جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ بہت کمزور ہے، ہم نے عدالت کا یہ فیصلہ بھی قبول کیا ہے لیکن ہم اس فیصلے کو غیر منصفانہ سمجھتے ہیں۔