لاہور (آئی این پی) پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے ایک مجوزہ قانونی مسودے پر شدید خدشات کا اظہار کیا ہے جس کا بظاہر مقصد پرنٹ میڈیا کی زبان بندی ہے اور کہا ہے کہ سول سوسائٹی ایسی کسی بھی کوشش کی مزاحمت کرے گی۔پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا کہ ایچ آر سی پی کو پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)آرڈیننس 2017کے مجوزہ مسودے کی تشہیر پر شدید تشویش ہے۔
اس قانونی مسودے میں پابندیوں اور سزاؤں کے اطلاق کا مطالبہ کیا گیا ہے جن میں اشاعتی لائسنس کی ہر سال تجدید کی شرط اور حکام کو کسی بھی اخبار کے اعلامیے کو منسوخ کرنے کے اختیارات دینے کا مطالبہ بھی شامل ہے ۔ ’مسودے‘ جس کا آج (پیر) پرنٹ میڈیا ریگولیٹر، پریس کونسل پاکستان نے جائزہ لینا تھا، نے سول سوسائٹی اور اظہار رائے کی آزادی کے حامیوں کو صدمے سے دوچار کیا ہے۔ اس صدمے کی وجہ نہ صرف مسودے کے مندرجات ہیں بلکہ ایک عجیب طریقے سے اس کا منظر عام پر آنا اور اس عمل میں متعلقہ فریقین کو اعتماد میں نہ لینا بھی اس کی وجوہ ہیں۔وفاقی وزیراطلاعات نے کہا ہے کہ ان کا مجوزہ قانونی مسودے سے کوئی تعلق نہیں اور اراکین پارلیمان کوبھی اس سے لاعلم رکھا گیا ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ مسودہ کہاں سے اور کس کے ایماء پر اچانک نمودار ہوا ہے۔ذرائع ابلاغ کی آزادی اور عام طور پر اظہار رائے کی آزادی انتہائی اہم معاملات ہیں جن کے لیے صحافیوں اور سول سوسائٹی کے جانباز کارکنوں نے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ اس معاملے کو زیر بحث لانے کی یہی ایک وجہ ہی کافی ہے تاکہ تمام فریقین اس عمل کا حصہ بن سکیں۔’پرامید ہیں کہ وزیراطلاعات نے اس حوالے سے جو انکوائری کروانے کا عہد کیا ہے، وہ فوری طور پرکروائی جائے گی اور اس کے نتائج بغیر کسی تاخیر کے منظرعام پر لائے جائیں گے۔ایچ آر سی پی اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹنے کی تمام کوششوں کی شدید مذمت کرتا ہے اور زور دے کر کہتا کہ اس قسم کے کوئی بھی اقدام باشعور شہریوں کے غم وغصہ کا موجب بنیں گے۔
ایچ آر سی پی جمہوری معاشرے کی اساس سمجھی جانے والی اِن بنیادی آزادیوں کے دفاع، تحفظ اور توسیع کی حالیہ جدوجہد میں صحافیوں اور تمام شہریوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔دریں اثناء وزیرمملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے پرنٹ میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون سازی کئے جانے کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرا نام استعمال کر کے خط لکھا گیا جس کو میں مسترد کرتی ہوں،
خط لکھنے والے شخص کو معطل کر دیا گیا ہے جو یہ کام کر رہے تھے یہ ان کی کم عقلی تھی، وزارت کا کام سہولیات دینا ہے، جرنلسٹس کو ہراساں کرنا نہیں،نہ کسی ایسے بل پر کوئی کوشش کی جا رہی ہے نہ کوئی ارادہ ہے، میں رپورٹرز کے تحفظ کے بل پر کام کر رہی ہوں، معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو 3دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی، انکوائری رپورٹ آنے پر پریس کانفرنس کروں گی۔
پیر کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا کہ کل ایک خبر آئی کہ پرنٹ میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون سازی کی جا رہی ہے، یہ خبر پڑھ کر تشویش ہوئی کہ یہ کیسی خبر ہے جس کا وزیر اطلاعات کو پتہ ہی نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وضاحت کرنا چاہوں گی کہ اس قانون یا ایسے احکامات کی کل تک کوئی خبر نہیں تھی، میں نے خبر چھاپنے والے اخبار سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس بارے میں وزارت کے لکھے گئے 3خط ہیں۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ میں نے ایمرجنسی اجلاس بلایا کیونکہ جو خط لکھے گئے ہیں ان کا کوئی بھی سرا وزارت میں نہیں ہے، اطلاعات تک رسائی سابق وزیراعظم نواز شریف کا وژن تھا، میں رپورٹرز کے تحفظ کے بل پر کام کر رہی ہوں، میں ایسی خبروں کو مسترد کرتی ہوں، میرا نام استعمال کر کے کوئی بھی ایسا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے تو میں اسے مسترد کرتی ہوں، وزارت کا کام سہولیات دینا ہے جرنلسٹس کو ہراساں کرنا نہیں، خط لکھنے والے سعد اللہ مہر کو معطل کر دیا گیا ہے، تین دن کے اندر اصل صورتحال واضح ہو جائے گی،
اپوزیشن نے بھی اس پر بیان دیئے لیکن نہ کسی ایسے بل پر کوئی کوشش کی جا رہی ہے اور نہ کوئی ارادہ ہے، میرا نام استعمال کر کے خط لکھا گیا جس کو میں مسترد کرتی ہوں، ایسی ڈرافٹ کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں، جو یہ کام کر رہے تھے یہ ان کی کم عقلی تھی۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو 3دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی، انکوائری رپورٹ آنے تک کوئی قیاس آرائی نہیں کرنی چاہیے، انکوائری رپورٹ آنے پر پریس کانفرنس کروں گی۔