1965کی جنگ میں پاکستان کا روایتی اور ازلی دشمن بھارت فوجی اعتبار سے سبقت رکھتا تھا مگر بحری اعتبار سے بھی اس کی خطے میں برتری کسی شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ 1965کی پاک بھارت جنگ کے دورا ن پاک بحریہ نے اپنے سے کئی گنا بڑی قوت کو ایسی عبرتناک شکست سے دوچار کیا کہ دشمن آج بھی اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہے۔بھارتی بحریہ 1965 میں
بھی طیارہ بردار جہاز سے لیس تھی جس کا نام ’’وکرانت‘‘ تھا۔بھارت کے بڑے بحری بیڑے کے مقابلے میں پاک بحریہ کے پاس صرف چند جہاز تھے اور صرف ایک آبدوز ’’غازی‘‘ تھی؛ جس نے اپنے نام کی طرح اس جنگ میں وہ کارنامہ انجام دیا جس پر ساری دنیا حیران رہ گئی۔زمینی اور فضائی جنگ کے بعد ابھی تک بحری محاذ پر پاک بھارت جنگ کا آغاز نہیں ہوا تھا مگر دشمن کے مادر وطن کے خلاف ناپاک عزائم کھل کر سامنے آچکے تھےاور وہ کسی بھی وقت بحری محاذ کو گرم کر سکتا تھا، دشمن کے ان عزائم کو بھانپتے ہوئے پاک بحریہ کے بیڑے میں شامل واحد آبدوز غازی کو بھارتی بحریہ کے ہیڈ کوارٹر بمبئی کے قریب نگرانی کے لئے تعینات کردیا گیا۔اس تعیناتی کا مقصد بھارتی بیڑے کی نقل وحرکت پر نظر رکھنا تھا لیکن اس اکیلی آبدوز نے دشمن کوعملی طور پر بمبئی میں ہی محصور کردیا؛ اور اسے اپنے مستقر سے باہر نکلنے کا موقع ہی نہ دیا۔ آبدوز غازی نے دشمن کے دلوں پر ایسی دھاک بٹھائی کہ بھارتی بحریہ سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی کہ یہ کونسی طاقت ہے جو اس کا راستہ روک کر کھڑی ہوگئی ہے۔مثلاً بھارتی بحریہ کے ایک جہاز نے جب باہر نکلنے کی کوشش کی تو غازی سے اس پر تارپیڈو داغے گئے جس سے بھارتی جہاز میں آگ لگ گئی۔ اس حملے نے بھارتی بحریہ کے رہے سہے حوصلے بھی توڑ دیئے
اور وہ دو ہفتوں کی جنگ کے دوران کھلے سمندر میں نکل کر مقابلہ کرنے یا پاک بحریہ پر حملہ آور ہونے کی جرأت ہی نہ کرسکی۔غازی آبدوز نے تن تنہا بھارتی بیڑے کا محاصرہ کئے رکھا اور اسے باہر نکلنے نہ دیا۔ دوسری جانب پا ک بحریہ کے جہازوں نے کموڈور ایس ایم انور کی قیادت میں ’’معرکہ دوارکا‘‘ کے ذریعے دشمن کے چھکے چھڑادیئے۔ اس آپریشن کا کہ جس میں
پاکستان کی شیر دل بحریہ نے نہ صرف بزدل دشمن کو اس کے گھر میں شکست دی بلکہ اس کے انتہائی اہم معلوماتی مرکز کو تباہ کیا،بہادر پاکستانی ،ڈیڑھ سو کلومیٹر تک بھارتی سمندری حدود میں داخل ہوئے،ریڈار اسٹیشن برباد کیا ،اللہ اکبر کی صدائیں بلند کیں ،اس آپریشن کے بحری بیڑے میں پاک بحریہ کے جنگی جہاز شاہ جہاں،بدر ، بابر، خیبر، جہانگیر، عالمگیراور ٹیپو سلطان شامل تھے ۔
چھ ستمبر1965 کو جیسے ہی دشمن حملہ آور ہوا، پاک بحریہ کی اعلیٰ کمان نے دفاع کے بجائے حملے کی جنگی حکمت عملی کے تحت جنگی جہازوں کے بیڑےکودوارکا روانہ کر دیا۔رات کی تاریکی،گہرا سمندر ، لیکن ہمت جواں ، ہر دل شہادت کیلئے بے تاب،دشمن کو نیست و نابود کرنے کی جستجو، ،ایڈمرل سے سپاہی تک ،سب کے سب ،،بس ایک سوچ ایک آرزو،ایک جستجو،
ایک امنگ،پاکستان ۔جہاز کسی مواصلاتی رابطے کے بغیر آگے بڑھ رہے تھے ،لاکھوں میل پر پھیلے سمندر کو چیرتے ہوئے ان کی رہنمائی انکاجذبہ شہادت تھا،دریائوں کے دل دہلانے والے ،مشن مکمل کرنے کو بیتاب تھے ،رب نے جیسے حضرت خضر ؑکو ان کی رہنمائی پر معمور کردیا تھا،پاک بحریہ کے جنگی بیڑہ میں شامل جہاز راستے میں آنے والے بھارتی جنگی جہاز کے چاروں اطراف
سے گزرے لیکن اس جہاز کو خبر تک نہ ہوئی ،،نصف شب کو نیوی کے جانباز دوارکا کے سامنے پہنچ گئے،حکم یہ تھا کہ ہرجہاز کو پچاس گولے پھینکنے ہیں اور ریڈار اسٹیشن کو تباہ کرنا ہے ،وہ ریڈار اسٹیشن جو کراچی کی پل پل کی خبر بھارتی سورمائوں کو پہنچا رہا تھا۔اللہ اکبر کی صدا میں گولہ باری شروع ہوئی اور چند ہی منٹوں میں دوارکا کاریڈار اسٹیشن ،،اور دوارکا
میں ہوائی جہازوں کیلئے بنایا گیا رن وے ،،بھوسے کا ڈھیر بن چکے تھے ۔غرور سے بھرے دشمن کو تہ تیغ کرنے کے بعد غازی بخیر و خوبی کراچی لوٹ آئے،ادھر بھارت کی کراچی پر حملے کی نہ صرف تمام پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی بلکہ اس کا مورال بھی ختم ہو گیا ۔دوارکا پاک بحریہ کی جنگی تاریخ ایک سنہرا باب،پاکستان کے سمندری محفظوں کا عظیم کارنامہ اور ،رہتی دنیا تک بھارتی غرورپر طمانچہ ہے ۔