اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)چنگیز خان تاریخ کے صفحات میں درج ایک ایسا نام ہے جس سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو۔ ان کی ظلم اور بہادری کی کہانیاں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ان کی فوجیں جس علاقے سے گزرتی تھیں اپنے پیچھے بربادی کی داستان چھوڑ جاتی تھیں۔ کہنے کو تو وہ منگول حکمران تھے، لیکن انھوں نے اپنی تلوار کے زور پر ایشیا کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔
تاریخ میں اتنے بڑے حصے پر آج تک کسی نے قبضہ نہیں کیا۔دنیا بھر میں جتنے بھی بڑے مہاراجہ، سلطان یا بادشاہ رہے ان کے مرنے کے بعد بھی مقبروں کی شکل میں ان کے نشان باقی رہے۔ یہ مقبرے شاید اس لیے تعمیر کیے گئے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ لوگ انھیں ہمیشہ یاد رکھیں۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ چنگیز خان نے اپنے لیے ایک عجیب سی وصیت کی تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس کی موت کے بعد ان کا کوئی نشان باقی رہے۔لہٰذا انھوں نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ انھیں کسی گمنام جگہ پر دفنایا جائے۔ وصیت کے مطابق ایسا ہی کیا گیا۔ فوجیوں نے انھیں دفنانے کے بعد اس کی قبر پر تقریبا ایک ہزار گھوڑوں کو دوڑا کر زمین کو اس طرح سے برابر کر دیا کہ قبر کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔منگولیا کے رہنے والے چنگیز خان کی موت کے بعد آٹھ صدیاں گزر چکی ہیں۔ اس تعلق سے کئی مشن چلائے گئے، لیکن ان کی قبر کا سراغ نہ مل سکا۔ نیشنل جيوگرافک نے تو سیٹلائٹ کے ذریعے اس قبر تلاش کرنے کی مہم شروع کی تھی جس کا نام ‘ویلی آف خان پراجیکٹ’ تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ چنگیز خان کی قبر تلاش کرنے میں غیر ملکی لوگوں کی ہی دلچسپی تھی۔ منگولیا کے لوگ چنگیز خان کی قبر کا پتہ لگانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس کی بڑی وجہ ایک خوف بھی ہے۔ کہا جاتا رہا ہے کہ اگر چنگیز خان کی قبر کو کھودا گیا تو دنیا تباہ ہو جائے گی۔
لوگ اس تباہی کی مثال دیکھ بھی چکے ہیں۔ اس وجہ سے بھی ان کے دلوں میں وہم نے اپنی جگہ پختہ کر رکھی ہے۔کہا جاتا ہے کہ 1941 میں جب سوویت یونین میں 14ویں صدی کے ترک منگول حکمران تیمور لنگ کی قبر کو کھودا گیا تو نازی فوجیوں نے سوویت یونین کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس طرح روس بھی دوسری عالمی جنگ میں شامل ہو گیا تھا۔
اسی لیے وہ نہیں چاہتے تھے کہ چنگیز خان کی قبر کو بھی کھولا جائے۔ کچھ ماہرین اسے چنگیز خان کے لیے منگولیائی لوگوں کا احترام سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق چونکہ چنگیز خان خود نہیں چاہتے تھے کہ انھیں کوئی یاد رکھے لہٰذا لوگ آج بھی اس کی خواہش کا احترام کر رہے ہیں۔
منگولیائی لوگ بڑے قدامت پسند خیالات کے حامل رہے ہیں۔ وہ اپنے بزرگوں کے گزر جانے کے بعد بھی اسی طرح احترام کرتے ہیں جیسے ان کی زندگی میں کرتے تھے۔ آج بھی جو لوگ خود کو چنگیز خان کی نسل کا مانتے ہیں وہ اپنے گھروں میں چنگیز خان کی تصویر رکھتے ہیں۔جو لوگ چنگیز خان کی قبر تلاش کرنے کے خواہشمند تھے ان کے لیے یہ کام آسان نہیں تھا۔
چنگیز خان کی تصویر یا تو پرانے سکّوں پر پائی جاتی ہے یا پھر ایک شراب کی بوتلوں پر۔ باقی اور کوئی ایسا نشان نہیں ہے جس سے ان کو مدد ملی ہو۔رقبے کے لحاظ سے منگولیا اتنا بڑا ہے کہ اس میں برطانیہ جیسے سات ملک آ جائیں گے۔ اتنے بڑے ملک میں ایک نامعلوم قبر کو تلاش کرنا سمندر میں سے ایک خاص مچھلی کو تللاش کرنے کے مترادف ہے۔
منگولیا ایک پسماندہ ملک ہے جہاں کئی علاقوں میں پکی سڑکیں تک نہیں ہیں۔ آبادی بھی بہت کم ہی ہے۔90 کے عشرے میں جاپان اور منگولیا نے مشترکہ طور پر چنگیز خان کی قبر تلاش کرنے کے لیے ایک مشترکہ پراجیکٹ پر کام کرنا شروع کیا تھا جس کا نام تھا ‘گروان گول’۔ اس پروجیکٹ کے تحت چنگیز خان کی پیدائش کی جگہ مانے جانے والے شہر كھینتی میں تحقیق کا کام شروع ہوا۔
لیکن اسی دوران منگولیا میں جمہوری انقلاب آ گيا جس کے بعد کمیونسٹ حکومت ختم ہو گئی اور جمہوری نظام قائم ہو گیا۔ نئی حکومت میں ‘گروان گول’ پراجیکٹ کو بھی رکوا دیا گیا۔منگولیا کی الانبٹور یونیورسٹی کے ڈاکٹر ديماجاؤ ایردینبٹار 2001 سے جنگنو بادشاہوں کی قبر کی کھدائی کر کے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جنگجو بادشاہ منگولوں کے ہی پرکھے تھے۔ خود چنگیز خان نے بھی اس بات کا ذکر کیا تھا۔
لہٰذا ان بادشاہوں کی قبرگاہوں کے اندازے اس بات کا پتہ چلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ چنگیز خان کا مقبرہ بھی انھی مقبروں جیسا ہی ہو گا۔جنگنو بادشاہوں کی مقبرے زمین سے تقریباً 20 میٹر گہرائی میں ایک بڑے كمرے کی شکل میں ہوتی ہیں جس میں بہت سی قیمتی اشیا بھی رکھی جاتی تھیں۔ اس میں چینی رتھ، قیمتی جواہر اور روم سے حاصل کی گئی شیشے کی بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ چنگیز خان کی قبر بھی ایسی ہی قیمتی چیزوں سے لبریز ہو گی جو اس نے اپنے دور اقتدار میں جمع کی ہوں گی۔
لیکن ڈاکٹر ایردینبٹور کو لگتا ہے کہ چنگیز خان کی قبر شاید ہی کبھی تلاشی کی جا سکے گی۔منگولیا میں مقبول قصوں کے مطابق چنگیز خان کو ‘كھینتی’ پہاڑیوں میں برخان خالدون نام کی چوٹی پر دفنایا گیا تھا۔ مقامی قصوں کے مطابق اپنے دشمنوں سے بچنے کے لیے چنگیز خان یہاں چھپے ہوں گے اور مرنے کے بعد اانھیں وہیں دفنایا گیا ہو گا۔ البتہ بہت سے ماہرین اس بات سے متفق نہیں ہیں۔
الانبٹور یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد والے سوڈنم سولمان کہتے ہیں کہ منگولیائی لوگ ان پہاڑیوں کو مقدس مانتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چنگیز خان کو یہاں دفنایا گیا ہو گا۔ ان پہاڑیوں پر شاہی خاندان کے سوا کسی اور شخص کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس علاقے کو منگولیا کی حکومت کی طرف سے محفوظ رکھا گیا ہے۔ یونیسکو نے بھی اسے عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ دے رکھا ہے۔
لیکن کسی بھی تحقیق سے آج تک یہ نہیں ثابت ہوا کہ واقعی چنگیز خان کی قبر یہیں ہے۔چنگیز خان زمانے کے لیے ایک بہادر اور ظالم حکمران تھے جو تلوار کے زور پر ساری دنیا کو فتح کرنا چاہتے تھے۔ لیکن منگولیائی لوگوں کے لیے وہ عظیم ہیرو ہیں جس نے منگولیا کو مشرقی اور مغربی ممالک سے مربوط کیا، شاہراہِ ریشم کو پنپنے کا موقع دیا۔ انھی نے منگولیا کے لوگوں کو مذہبی آزادی کا احساس کروایا۔
اسی کے دور حکومت میں منگولیائی لوگوں نے کاغذ کی کرنسی کا آغاز کیا اور ڈاک سروسز کی بھی ابتدا ہوئی۔ چنگیز خان نے منگولیا کو مہذب معاشرہ بنانے میں مدد کی۔منگولیا کے لوگ چنگیز خان کا نام بڑی عزت اور فخر سے لیتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر چنگیز خان خود چاہتے کہ ان کے مرنے کے بعد بھی لوگ اسے یاد کریں تو وہ کوئی وصیت نہ کرتے۔
اگر وہ چاہتا تو کوئی نہ کوئی اپنی نشانی ضرور چھوڑتے۔ یہی وجہ ہے کہ منگولیا کے لوگ نہیں چاہتے کہ اب ان کی قبر کی تلاش کی جائے۔ جو وقت کی دھند میں کہیں گم ہو چکا ہے اسے پھر سے نہ کریدا جائے۔