آج وزیراعظم کے آفس میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں ایک شاندار تقریب ہوئی‘ وزیراعظم نے کھلاڑیوں کو شیلڈز بھی دیں اور انعامی رقم بھی‘ ہمارے کھلاڑی ۔۔اس عزت کے حق دار ہیں‘ یہ عزت ۔۔انہیں ملنی چاہیے تھی اور یہ ۔۔انہیں ملی‘ حکومت خراج تحسین کے لائق ہے‘ وزیراعظم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنے بچپن‘ اپنی جوانی اور کرکٹ کے ساتھ اپنی وابستگی کی بے شمار یادیں تازہ کیں‘
وزیراعظم نے اپنی جوانی کے بے شمار کرکٹرز کا ذکر بھی کیا۔اس تقریب میں سب کچھ تھا‘ اگر نہیں تھا تو عمران خان اور ۔۔ان کا ذکر نہیں تھا، ہمیں یہ ماننا ہو گا پاکستان میں کرکٹ کی تاریخ عمران خان کے بغیر مکمل نہیں ہوتی، وزیراعظم کو ۔۔اس تقریب میں عمران خان کو بھی دعوت دینی چاہیے تھی‘ یہ آتے یا نہ آتے ۔۔لیکن آج (اس) شخص کو دعوت دینا ضروری تھا جس نے 1992ء میں پاکستان کو ورلڈ کپ دیا تھا، یہ قابل افسوس بات ہے‘ آج۔۔اس پوری تقریب میں کسی جگہ عمران خان کا نام نہیں آیا‘ کسی پرومو‘ کسی تقریر اور کسی تذکرے میں بھی۔۔ان کا نام نہیں آیا‘ ۔۔ان کی تصویر تک نہیں ۔۔دکھائی گئی‘ یہ زیادتی ہے‘ ہمیں کم از کم نیشنل پرائڈ میں بڑے دل کا مظاہرہ ضرور کرنا چاہیے‘ ہمیں کم از کم قومی ایشوز پر ہر قسم کی نفرت اور مخالفت سے بالاتر ہو جانا چاہیے اور ہمیں کم از کم‘ ۔۔ان لمحات کو سیاست بازی سے ضرور پاک کر دینا چاہیے۔ ہم آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں‘ حسین نواز آج چھٹی مرتبہ جے آئی ٹی میں پیش ہوئے یوں یہ مجموعی طور پر 31 گھنٹے تفتیش کے عمل سے گزرے‘ آج ۔۔ان کے لہجے میں بھی تلخی تھی، جوڈیشل اکیڈمی کی عمارت میں نہ جانے ایسا کیا ہے کہ جو بھی باہر نکلتا ہے وہ پھٹ پڑتا ہے۔