پیر‬‮ ، 25 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

کیا واقعی اسامہ ایبٹ آباد آپریشن میں ہلاک ہوگئے؟جنرل(ر)حمید گل نے اسامہ کوکب پیغام بھجوایا؟آخری ملاقات کب ہوئی؟حیرت انگیز انکشافات

datetime 15  جون‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک )تورا بورا سے فرار اور تقریباً دس سال بعد ایبٹ آباد میں امریکی سپیشل فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے درمیانی عرصے میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کہاں تھے اور ان پر کیا گزری؟ اس سوال کے جواب میں قیاس آرائیاں بہت ہوئی ہیں اور افواہیں بھی بہت گردش کرتی رہی ہیں لیکن اب ایک نئی کتاب میں القاعدہ کے رہنما کے اِن دس برسوں کی کہانی تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔

دا ایگزائل نامی کتاب میں نہ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کا مطلوب ترین مجرم کہلانے والا شخص کس طرح دنیا سے چھپا رہا بلکہ یہ بھی کہ اس کے خاندان اور تنظیم پر اس کا کیا اثر پڑا۔ اس کتاب کے مصنفین کیتھرین سکاٹ کلارک اور ایڈریئن لیوی ہیں جن دونوں کا تحقیقاتی صحافت میں ایک بڑا نام ہے۔ اس کتاب میں بھی اس تحقیقاتی ٹیم نے بہت تفصیل سے معلومات جمع کی ہیں، جن میں خاص اہمیت اس کہانی کے کئی اہم کرداروں سے ان کے انٹرویوز ہیں۔ اہم کرداروں کی گواہی اس کتاب کی خاص بات ہے اور اس میں نہ صرف اسامہ کی کئی بیویوں اور بچوں کے بیانات شامل ہیں بلکہ القاعدہ سے منسلک اہم افراد اور دیگر انٹیلی جنس اہلکاروں کے بھی۔ غالبا یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اسامہ بن لادن کے خاندان نے اس دہائی پر کھل کر بات کی ہے۔ خیریہ اور انکے بہت سے بچے 2010 تک ایران میں رہے۔ ان کا مقام کبھی مہمان کا ہوتا، کبھی پناہ گزین کا تو کبھی قیدی کا۔ ایران نے 2010 میں اسامہ کے خاندان اور القاعدہ کے اہلکاروں کو صرف اس لیے نکلنے دیا کہ القاعدہ نے پشاور سے ایک ایرانی اہلکار کو اغوا کر لیا تھا اور یہ اس کی رہائی کا سودا تھا۔ ایران نے 2003ء4 میں ایک بیک چینل کے ذریعے امریکہ سے اسامہ خاندان کو اس کے حوالے کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن امریکہ نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور اس پیشکش کو رد کر دیا۔

اس وقت امریکہ کی پوری توجہ عراق پر حملے کی تیاریوں پر مرکوز تھی، اور وہ عراق کا القاعدہ سے تعلق دکھانا چاہتا تھا۔اسامہ کے دو بچے ایران کی تحویل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ ان کا بیٹا سعد وزیرستان میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوگیا اور پھر 2010ء4 میں اسامہ کی 18 سالہ بیٹی ایمان تہران کے ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور سے فرار ہوگئیں۔اسامہ بن لادن بھی کچھ دن کراچی میں رہے اور ایک چھاپے میں گرفتاری سے بال بال بچے تھے۔

جنرل حمید گل نے 2005میں اسامہ کو مولانا فضل الرحمان خلیل کے ذریعے ایک پیغام بھجوایا تھا۔ اسامہ اس ملاقات کے لیے ایبٹ آباد سے قبائلی علاقے آئے تھے۔ جنرل حمید گل ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ اسامہ تورا بورا کی بمباری میں ہلاک ہو گئے تھے اور امریکی ایک ڈرامہ کرتے رہے ہیں۔ اسامہ بن لادن کے کئی بیٹے سپیشل بچے تھے۔ خیریہ کی اکلوتی اولاد حمزہ بن لادن اب اسامہ کے جہادی وارث سمجھے جا رہے ہیں، اور شاید ان کے واحد بیٹے ہیں جو اس راہ پرگامزن ہیں۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…