بابا محمد یحییٰ خان کی کتاب ’’کاجل کوٹھا‘‘میں وہ حضرت علی ؓ سے منسوب ایک پُر حکمت روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہاں پہ حضرت علی کرم اللہ وجہہُ کی وہ حکایت یاد آتی ہے ایک لا دین شخص حاضر ہوا، کہنے لگا۔”یا علی ابن ابو طالب! میں اللہ کو واحدہ لا شریک نہیں مانتا جبکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہہ مانتے ہیں۔ اب یہ آپ رضی اللہ تعالی عنہہ یہ بتائیے کہ مجھ اور
آپ رضی اللہ تعالی عنہہ میں کیا فرق ہے۔۔۔ کھانا، پینا، پہننا آپ رضی اللہ تعالی عنہہ کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے اور میرے ساتھ بھی۔۔۔میں بھی خوش ہوں، آپ رضی اللہ تعالی عنہہ بھی پھر مجھے آپ رضی اللہ تعالی عنہہ کے اللہ کو ماننے یا کلمہ پڑھنے کی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی؟”آپ رضی اللہ تعالی عنہہ مسکرا دیئے بڑی نرمی سے فرمایا۔”فرض کرو کہ میدان حشر بپا ہے خدا اور اس کی خدائی وہاں پہ موجود ہے، نہ ماننے والوں کو جہنم میں اور ماننے والوں کو جنت میں داخل کیا جا رہا ہے، اب تم صرف ہاں اور ناں میں جواب دو’’ وہاں گھاٹے میں تم یا میں؟”وہ بلا تامل بولا’’یقیناً میں گھاٹے میں ہوں کہ اللہ کو نہیں مانتا‘‘اب آپ رضی اللہ تعالی عنہہ پھر فرمانے لگے۔”اب فرض کرو کہ بقول تمہارے کہ اللہ کا وجود نہیں’’ تو پھر کیا صورت ہوئی‘‘ یعنی کوئی نہ تمہیں نقصان اور نہ مجھے کوئی گھاٹا”۔وہ بلا تامل بولا”بالکل درست”آپ رضی اللہ تعالی عنہہ مسکرائے اور فرمانے لگے۔”پہلی صورت میں تم گھاٹے میں تھے، دوسری صورت میں ہم دونوں برابر تو کیا یہ نفع کا سودا نہیں کہ ہم مان لیں کہ اللہ وحدہُ لا شریک ہے تاکہ کسی کو بھی نقصان گھاٹے کا احتمال ہی نہ رہے۔”وہ مشرک یہ کھلی دلیل سن کر ایمان لے آیا۔