حرم کعبہ ہے۔ لوگ طواف میں مصروف ہیں۔ہزارہا لوگ اللہ کے گھر کا طواف کر رہے ہیں۔ ایک جوان جس کے چہرے پر نقاب اور پردہ ہے۔ وہ مقام ملتزم پر کھڑا چہرے کو چھپائے کعبے کا غلاف پکڑ کر زار و قطار رو رہا ہے۔ اس کی آہیں بلند ہو رہی ہیں۔ اس کی چیخیں نکل رہی ہیں اور وہ رو رو کر اپنے مولا کو پکار کر کہہ رہا ہے کہ مولا اس زمین پر درختوں کے اتنے پتّے نہیں نہیں جتنے میرے گناہ ہیں۔
سمندر کے اتنے قطرے نہیں جتنے میرے گناہ ہیں۔ معاف کرنے والے مجھے معاف کردے۔ مولا! میرے گناہوں نے مجھے شرمندہ کردیا۔ میں اپنا چہرہ تجھے نہیں دکھا سکتا۔ مجھے معاف کردے۔ ایسی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ رونے والے کی آواز بلند ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ طواف کرنے والوں نے طواف کرنا چھوڑ دیا اور اس کے گرد جمع ہوگئے۔ اس میں کئی اہل اللہ بھی تھے۔ وہ سوچنے لگے کہ جوان اتنا گنہگار ہے؟ کہنے لگے: مولا! ہم سب کے طواف اور عبادتیں اور ان کے اجر بھی اس کو دے کر معاف کردے۔ لوگوں کو اپنے طواف اور عبادتیں بھول گئیں۔ مگر وہ جوان دھاڑے مار مار کر رو رہا ہے۔ جب لوگ برداشت نہ کرسکے۔ تو اہل اللہ میں سے ایک آگے بڑھا۔ اس نے چہرے کے نقاب کو پکڑ کر کہا کہ جوان! تجھے اللہ معاف کردے۔ ہم سے اب سنا نہیںجاتا۔ تیری گریہ و زاری برداشت نہیں ہوتی۔تو چہرے سے نقاب پلٹ اور بتا تو سہی تو اتنا بڑا گنہگار روئے زمین پر ہے کون؟ آپ نے چہرے سے نقاب پلٹا تو وہ امام زین العابدین تھے جو ساجدین کے امام تھے۔ جو عابدین کے امام تھے۔ لوگ تڑپ کے زمین پر گر گئے کہ مولا! اگر امام زین العابدین کا یہ حال ہے تو ہمارے کیا ہوگا؟