جمعہ‬‮ ، 19 ستمبر‬‮ 2025 

جو سوچتے ہو وہی بولنے سے ڈرتے کیوں ہو؟

datetime 3  جون‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ایک دن میں صبح صبح کی فلائٹ لے کر آفس پہنچا جیٹ لیگ کی وجہ سے تھکا ہوا تھا اور مجھے صبح کی یہ میٹنگز بہت ناگوار گزرتی تھیں۔ میں اپنے آفس کا ہیڈ تھا۔ مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے تھا کہ کون کیا بول رہا ہے۔ لیکن مجھے اب عادت ہو چکی تھی کہ سب ایک دوسرے کو باتیں کر رہے ہوتے تھے اور ہمارے آفس کی سیاستوں میں ہی آدھا وقت ضائع ہو جاتا تھا۔ میں ان لوگوں کی ان حرکتوں سے بہت تنگ تھا۔ بیٹھ کر سنتا رہتا تھا۔ وہ آپس میں پڑھے لکھے لوگوں کی طرح جڑین کاٹنے والی بے مقصد باتیں کرتے رہتے تھے۔

سب کو یہ فکر لگی ہوتی تھی کہ میں یہ سمجھوں کہ وہ بہت دیانت دار اور محنتی ہیں اور باقی سب تو مفت کی روٹیاں توڑنے آفس آتے ہیں۔ اصل میں سالوں سے یہی ہو رہا تھا، یہ سب ایک دوسرے پر تنقید میں جتے رہتے تھے اور میں دل میں سوچتا رہتا تھا کہ اگر یہ سب صرف کام کی بات کریں اور ایک دوسرے پر بے جا توجہ دینا چھوڑ دیں تو میرا آفس کتنی اچھی جگہ بن سکتا تھا۔ ہماری کمپنی بہت بڑی اور کامیاب تھی، مجھے پیسوں کا کوئی مسئلہ کبھی نہیں ہوا تھا لیکن میں ان کی دلی ناسوروں اور سیاستوں سے بہت تنگ پڑتا تھا۔ میرا یہ نظریہ تھا کہ کون بول رہا ہے اس کے بجائے کیا بول رہا ہے اس کو اہمیت دی جائے۔ خیر اللہ اللہ کر کے آج کی میٹنگ کا بھی آگاز ہوا۔ مجھے ساتھ ساتھ کچھ عجیب سی آوز مسلسل سنائی دے رہی تھی۔ میں سمجھا کہ شاید میں تھکا ہوا ہو تو میرے دماغ میں ابھی بھی جہاز کی آواز چل رہی ہے۔ میں نے تھوڑا سا غور کیا تو میں فوراً سمجھ گیا کہ یہ کسی جہاز کی آواز نہیں تھی۔میں میٹنگ میں جس آدمی کو بھی دیکھتا تھا، مجھے اس کی سوچ بھی سنائی دے رہی تھی۔ میں بہت حیران ہو گیا کہ مجھے ایسی قوت کہاں سے مل گئی۔ میں نے پہلے عنبر کی بات سنی، وہ بول کچھ اور رہی تھی اور اس کی سوچ اس کے بالکل برعکس تھی۔ میں بہت خوش ہوا کہ میں ان کے دل کا حال جان سکتا ہوں۔ میں نے اس کی بات سن کر اس کا جواب دینے کے بجائے،

اس کی سوچ کا جواب دیا کہ اچھا دراصل تم یہ کہنا چاہ رہی ہو؟ وہ بہت حیران ہوئی اور تھوڑی سی شرمندہ بھی ہو گئی کہ شاید اس کی کسی بات سے مجھے اس کی سوچ کی سمجھ لگ گئی ہے۔ اس نے بولا: جی سر یہی بات ہے۔ پھر احمد نے بولا کہ سر ایسے کیوں نہ کر لیں؟ اس کی سوچ سنی تو بالکل اس کی الٹ ایک کریزی ترکیب اس کے دماغ میں تھی۔ میں نے تھوڑا سا سوچا اور مجھے لگا کہ اس کی کریزی سکیم بہت شاندار تھی۔ میں نے بولا کہ احمد میری بات سنو اس کے بجائے ہم ایسے کیوں نہیں کر لیتے؟

میں نے اس کی سوچ کا سر پھرا پلان اس کو سنایا۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مجھے دیکھ رہا تھا۔ مجھے ہنسی آرہی تھی۔ وہ بولا سر زبردست، بالکل بالکل ایسے بھی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح میٹنگ مین شامل پندراں لوگوں کی سوچ سن سن کر ہم نے سارے فیصلے آپس میں متفق ہو کر کر لیے۔ پہلی بار میٹنگ میں کسی کا موڈ خراب ہوا اور نہ کسی نے کسی دوسرے پر کوئی تنقید کی۔

جب میں میٹنگ ہال سے باہر نکلا تو مجھے ان سب کی سوچ سنائی دے رہی تھی۔ ہر کوئی سوچ رہا تھا کہ آج کی میٹنگ سب سے زبردست رہی اور ہر کام بہت اعلی طریقے سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ آج کی سب سے اچھی میٹنگ تھی۔ میں بہت پر سکون ہو کر ہال سے نکل رہا تھا۔ حاصل سبق صاف ہے، ہم سب اپنی اصل سوچ کو ظاہر کرنے سے ڈرتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟ ڈرنے کا کبھی کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ ہر انسان کی سوچ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتی ہے اور یہ اللہ کا نظام ہے۔

اس نے سب پیمانوں میں جدا جدا رنگ ڈالے ہیں۔ جیسے نیلسن منڈیلا کہتا تھا کہ اگر ہم ایک دوسرے کے اختلافات کا مثبت استعمال کریں ، اپنے فرق فرق ہونے پر لڑنے کے بجائے اس سے سیکھیں ، تو دنیا بہت ترقی کر سکتی ہے۔ گورا کالے کو بہت کچھ سکھا سکتا ہے اور کالا گورے کو۔ اسی طرح ایک مسلمان ایک عیسائی کو اور ایک عیسائی یہودی کو۔ ہم لڑتے رہتے ہیں کہ میرا طریقہ ٹھیک ہے، کسی کا کوئی طریقہ ٹھیک ہونے کا مطلب یہ کب سے ہو گیا کہ دوسرے کا طریقہ اگر مختلف ہے تو وہ غلط ہے۔

جس کو جس طرح سے اپنا ہدف حاصل ہو سکتا ہے، وہ اس طرح سے کام کر لے۔ درست اور غلط بھی انسانوں کی کم عقلی کا نتیجہ ہے۔ کوئی چیز درست اور غلط نہیں ہوتی۔ سب کی اپنی اپنی انفرادیت ہے اور یہی انفرادیت ہمیں باقیوں سے مختلف بناتی ہے۔ ہر انسان جو ہے اور جیسا ہے وہ اس دنیا میں ایک اپنا رنگ بھرتا ہے اور اسے اللہ نے اپنا رنگ بھرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔نیلسن منڈیلا نے ستر سال جیل میں قید کاٹی اور ایسے ڈھنگ سے کہ پوری دنیا کو اپنی امن پسندی کا قائل کر لیا۔

برے سے برا جیلر بھی اس کے ساتھ آخر میں نرم رویے سے بات کرتا تھا۔ ایسا آدمی جس کا مذہب اور روش انسانیت تھی، اس نے بولا کہ انسان کو اپنی انفرادیت قائم رکھنی چاہیے اور ہم سب مختلف ہیں اور ایسے میں ہمارا ایک دوسرے سے اختلاف رکھنا ایک فطری عمل ہے۔ ہم سب کو ایک دوسرے سے موجود اختلافات سے سیکھنا چاہیے۔ ان پر لڑنا جھگڑنا اور یہ فیصلے کرتے پھرنا کہ کون ٹھیک ہے اور کون غلط، یہ وقت کا ضیاع ہے ۔ اسلام میں اس کو فساد اور فتنہ بولتے ہیں اور جو انسان بھی فساد پھیلائے یا اس کا حامی بنے، وہ گناہ گار ہوتا ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



انسان بیج ہوتے ہیں


بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…