ایک ٹیچر کلاس میں گئی اور سب بچوں کو ایک ایک کاغذ دے دیا۔ اس کاغذ پر کلاس کے باقی سارے بچوں کے نام لکھے تھے اور ہر نام کے بعد ایک لکیر خالی تھی۔ اس نے ان بچوں کو بتایا کہ سب نے اپنے باقی سارے کلاس فیلو کے ناموں کے نیچے والی لائن میں ان کی کوئی خوبی لکھنی ہے۔ جب ساری کلاس نے یہ پروجیکٹ مکمل کر لیا تو ٹیچر وہ سارے پیپر اپنے گھر لے گئی۔ اگلے دن اس نے ایک ایسی لسٹ بنائی جس میں ہر سٹوڈنٹ کا نام تحریر تھا
اور اس کے بارے میں ہر ایک نے جو لکھا تھا، وہ اس نے ایک ایک سٹوڈنٹ کے لیے علیحدہ علیحدہ چٹس پر لکھ دیا تھا۔جب اس کی کلاس شروع ہوئی تو اس نے ہر سٹوڈنٹ کو اس کے نام والا پیپر پکڑا دیا اور سب کو بیس منٹ دے دیے تاکہ وہ پڑھ لیں کہ ان کے بارے میں باقی پوری کلاس نے کیا کیا لکھا تھا۔ جب سب نے پڑھ لیا تو سب کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے۔ ٹیچر نے ان سے ان کے خیالات پوچھے تو تقریباً سب کا ایک ہی جواب تھا کہ میں نہیں جانتا تھا کہ سب میرے بارے میں اتنا اچھا سوچتے ہیں۔ بیس سالوں بعد ٹیچر کو ایک پرانے اسی کلاس کے سٹوڈنٹ کا خط ملا۔ اس کا نام کریم تھا۔ وہ بہت اداس ہوئی جب اس نے خط پڑھا۔ کریم ایک حساس ادارے کا ممبر تھا اور اس کی ایک جنگ میں شہادت ہو گئی تھی۔ وہ ایک فوجی تھا اور اس کے جنازے میں اس ٹیچر کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ جب وہ ادھر گئی تو اس نے کریم کو دیکھ کر پہچان لیا کہ وہ کون تھا۔کریم اپنے تابوت میں اپنے یونیفارم میں بہت باوقار لگ رہا تھا۔ جب وہ تابوت کے پاس اظہار تعزیت کے لیے پہنچی تو کریم کے ماں اور باپ نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ کریم کی ریاضی کی ٹیچر ہیں؟ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس کے ماں باپ نے بتایا کہ ہمارا بیٹا آپ کو بہت یاد کرتا تھا۔ آپ کی وجہ سے اس میں بہت خود اعتمادی پیدا ہو گئی تھی۔ پھر اس کے والد نے اپنا بٹوا نکالا اور اس میں سے ایک رقعہ نکال کر اس کی ٹیچر کو دیدیا۔ جب اس ٹیچر نے پڑھا تو وہ حیران رہ گئی،
یہ وہی چٹ تھی جو اس نے کلاس کے باقی سب بچوں کی باتوں سے کریم کے لیے بنائی تھی۔ اگر بیس سال بعد بھی کریم نے وہ سنبھال کر رکھی ہوئی تھی تو وہ سمجھ گئی کہ اس کے لیے اس کی کیا اہمیت تھی۔ابھی وہ اس بات پر سوچ ہی رہی تھی کہ کریم کے بہت سے اور بھی کلاس فیلو تابوت کے پاس آگئے اور اپنی ٹیچر کو پہچان کر سب نے اپنی اپنی چٹ نکال لی۔ جن کے پاس چٹ اس وقت موجود نہیں تھی
انہوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اسے سنبھال کر رکھتے ہیں۔ وہ حیران رہ گئی اور اسے کریم کی موت کا شدید صدمہ ہوا۔زندگی بہت زیادہ تیز رفتار ہو گئی ہے اور کسی کو کسی دوسرے کے لیے وقت نہیں ملتا۔ ایسے میں اگر انسان دو منٹ نکال کر دوسرے کو یہ بتائے کہ اس کی کیا اہمیت ہے تو کسی کے جانے سے پہلے اس کو خوشی نصیب ہو سکتی ہے مگرالمیہ یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کے پاس بھی کسی دوسرے کے لیے وقت کہاں ہے؟