آپ نے یہ تو دیکھا ہوگا کہ ماں بعض دفعہ اپنے بچوں میں کوئی چیز بانٹ رہی ہوتی ہے تو ایک بچے کو اَن دیکھا کر دیتی ہے جس پر وہ کہتا ہے ماں مجھے تو دیا ہی نہیں، مجھے بھی دیں نا !ماں یکدم چونکنے کی ایکٹنگ کرکے کہتی ہےاچھا تم رہ گئے ؟ لو ! تم بھی لو !یہ بات یاد رکھیں کہ ماں کبھی بھی اپنے بچے کو نہیں بھولتی، اگر بھول جائے تو وہ کچھ بھی ہو سکتی ہے ماں نہیں ہو سکتی۔
ماں یہ حرکت صرف اس لئے کرتی ہے کہ اس خاص بچے پر اس لمحے میں اسے پیار بہت آ رہا ہوتا ہے اور وہ چاہتی ہے کہ وہ بچہ بےقرار ہو کر مانگے تو میں دوں۔ ماں اپنے مزاج میں خدائی صفات کے بہت قریب ہے، مثلا باپ سے ہر چیز مانگنی پڑتی ہے جبکہ ماں بن مانگے دیتی ہے جو خدا کی صفت “کریم” کا عکس ہے۔ اسی طرح یہ جو ماں بعض دفعہ اَن دیکھا کر دیتی ہے یہ بھی خدائی صفت کا عکس ہے۔ وہ دن بھر میں اپنی ہزارہا نعمتوں سے بن مانگے نواز رہا ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ کوئی چیز روک لیتا ہے اور وہ بس یہ چاہتا ہے کہ وہ خاص چیز آپ مانگیں تو وہ دے۔یہ بھی اس کے پیار کا ایک انداز ہے۔ جب وہ اپنا پیار جتایا کرے تو منہ مت پھیر لیا کریں بلکہ اسی طرح بے قرار ہو کر مانگ لیا کیجئے جس طرح ماں سے بچپن میں مانگا کرتے تھے۔ بس یہ بات یاد رکھئے کہ وہ قادر مطلق ذات بہت بڑی ہے سو بے قراری بھی ذرا بڑی دکھانی ہوگیخدا میں ماں کی صفات کے عکس کی سب سے شاندار مثال یہ ہے کہ ہم ان دونوں کو “تو” کہہ کر مخاطب کر لیتے ہیں اور دونوں ہی اسے بے ادبی نہیں سمجھتے لیکن دونوں ہی کو بے اعتنائی بہت ناپسند ہے۔ بندہ دنیا میں لگ کر خدا سے غافل ہوجائے اور بیٹا بیوی سے لگ کر ماں کو نظر انداز کردے تو ناراضگی پکی ہے لیکن دونوں ہی راضی ہونے کے لئے بھی ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ان دونوں کو راضی کرنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے لیکن مستقل راضی رکھنا ہی اصل امتحان ہے۔
ان دونوں ہی کے ہاں پورے جلال کا ایک ہی موقع ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے محبوب ﷺ کے معاملے میں حد درجہ حساس ہیں۔ صحابہ نے اونچی آواز میں کوئی بات کردی تو فورا وحی نازل ہوگئی کہ میرے محبوب کے دربار میں اپنی آوازیں نیچی رکھا کرو۔ ازواج مطہرات میں سے دو نے بیوی والا روایتی انداز اختیار فرمایا تو سورہ تحریم کی ابتدائی آیات نازل ہو گئیں۔ جس کا ڈانٹتا ہوا انداز ہی انسان کو آنحضرت ﷺ کے ادب والے معاملے کی حساسیت سمجھا دیتا ہے۔یہی حساسیت ماں کے ہاں اپنے میاں کے معاملے میں نظر آتی ہے۔
اگر بیٹا باپ کی بے ادبی کر دے ماں کا جلال پرے جوبن پر چلا جاتا ہے اور وہ ماں والا مشہور زمانہ رحم بھول جاتی ہے۔ جانتے ہیں کیوں ؟ کیونکہ بچوں کا باپ اس کا “جانو” ہوتا ہے۔ وہ اپنے جانو کی بے ادبی اپنی اولاد سے بھی قبول نہیں کرتی۔ اب آجایئے اصل بات کی طرف۔ کچھ لوگوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ معاملات ٹھیک نہیں ہو رہے۔ کار و بار ذرا سا ٹھیک ہوتا ہے تو پھر بگڑ جاتا ہے، پھر ذرا سنبھلتا ہے تو پھر بگڑ جاتا ہے، پھر سنبھلتا ہے تو ایک بار پھر بگڑ جاتا ہے۔
یہ ایک عام سی شکایت ہے جو آپ نے کئی لوگوں سے سنی ہوگی اور ممکن ہے کہ آپ کو بھی ہو۔ کیا آپ نے کبھی اس ماں کو دیکھا ہے جس نے اپنا چھوٹا سا بچہ بڑے پیار سے سامنے بیٹھایا ہوتا ہے اور وہ کھلونا اس کی طرف بڑھاتی ہے جسے بچہ لینے لگتا ہے تو یہ یکدم پیچھے کر لیتی ہے، ماں پھر کھلونا آگے کر دیتی ہے اور وہ پکڑنے لگتا ہے تو ماں پھر سے یکدم پیچھے کر لیتی ہے اور یہ سین اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک وہ بچہ رو نہ دے۔ جیسے ہی وہ رو دیتا ہے تو ماں جلدی سے کھلونا اس کے حوالے کرکے اسے سنبھال لیتی ہے۔ او اللہ کے بندو ! کچھ سمجھے کہ نہیں ؟ آپ رو کیوں نہیں دیتے اس کے سامنے۔