یہ2005 کی بات ہے کہ رابن سن ہائی سکو ل کی ایک سو شل سٹڈیزکی ٹیچر مارتھا کوتھرن نے اپنی کلاس کے سارے ٹیبل اٹھوا کر باہر رکھ دیے۔ جس وقت طلبہ کلاس میں داخل ہوئے تو انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ہوا ہے؟ بچوں نے اپنی میڈم سے پوچھا کہ ان کی کونسی غلطی کی وجہ سے ان کی کلاس ٹیچر نے ڈیسک باہر رکھوا دیے تھے۔ وہ بولی کہ آج آپ لوگ سارا دن زمین پر بیٹھ کر پڑھائی کرو گے اور ڈیسک کے بغیر گزارہ کرو گے۔ آپ لوگ آج یہ سوچو گے کہ آخر آپ نے یہ ڈیسک کیسے کمائے۔
آپ کس طرح ان پر بیٹھنے کے قابل بنے ہو؟ بچے حیران تھے کہ یہ کیسا عجیب سا سوال ہے۔ انھوں نے پورا دن نیچے زمین پر بیٹھ کر پڑھائی کی۔ جب دوپہر میں چھٹی کا وقت آیا تو ان کی میڈم نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور ان کو بتایا کہ ابھی ان کے ڈیسک واپس آجائیں گے اور طلبہ کو یہ بھی سمجھ آجائے گا کہ یہ ڈیسک ان کو کیوں اور کیسے روز پڑھنے کے لیے بیٹھنے کو مل جاتے ہیں۔ جب مارتھا نے دروازہ کھولا تو تیس یو ایس آرمی کے فوجی تیس ڈیسک لیکر باہر کھڑے تھے۔ان میں سے ایک ایک اندر ایک ایک ڈیسک اٹھا کر لایا اور ایک ایک لائن میں رکھتے گئے۔ جب انھوں نے سارے ڈیسک واپس رکھ دیے تو مارتھا نے بچوں کومخاطب کیا کہ آج سے یہ بات اپنے دل اور دماغ میں بٹھا لو کہ ان فوجیوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر تمہاری سرحدوں کی حفاظت کی ہے اور انہوں نے تمہارے لیے یہ ڈیسک کمائے ہیں۔ اگر تم روز اس قابل ہوتے ہو کہ آکر اپنے اپنے ڈیسک پر براجمان ہو جاتے ہو تو اس بات کو سمجھو کہ تم اس قوم کا مستقبل ہو اور یہ فوجی تمہارے لیے تمہاری آزادی اور آسائشیں کما رہے ہیں۔ آج کے بعد اپنے آپ کو اس قابل بھی بناؤ کہ تم اتنے قیمتی ڈیسکز پر بیٹھ سکتے ہو۔ پہلے تم بچے تھے اور تمہاری عقل ناقص تھی۔ تم اپنی اہمیت کو بھانپ نہیں سکتے تھے لیکن عمر کے ساتھ ساتھ تمہاری عقل پختہ ہوتی جا رہی ہے اور اب تمہیں اپنے فرائض سمجھنے چاہیے ہیں۔ جان جاؤ کہ یہ ایک ایک ڈیسک ایک ایک فوجی کی جان وار کر تم تک پہنچا ہے۔ اپنی پڑھائی کو مزاق مت سمجھو۔ اس قوم کے جوان ہو تو بن کر دکھاؤ۔ مارتھا کوتھرن کو2006 میں سابقہ فوجیوں نے اس سال کی ’بیسٹ ٹیچر آف دا یےئر ‘ کا خطاب دیا تھا۔