ہینری فورڈ کی مشہور کہاوت ہے کہ انسان وہی بنتا ہے جو وہ خود کو سمجھتا ہے۔ ارل نائیٹنگیل نے ۱۹۵۷ میں اپنی جس کتاب کی کئی ملین کاپیاں سیل کر کے اس کو ایک بیسٹ سیلر بنایا تھا اس کا نام تھا ’ سب سے عجیب وغریب راز‘ اور اس نے اس کتاب میں صرف ایک ہی نقطے پر زور دیا تھا کہ ’ہم جو بھی سوچتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ انسان وہی بن بھی جاتے ہیں‘۔ ہینری فورڈ نے مزید یہ بھی بولا تھا کہ دنیا کا سب سے مشکل کام ہے دن میں وقت نکال کر بیٹھ کر صرف سوچنا اور غور وفکر کرنا۔ روم کے بادشاہ مارکس آریلیس کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ جو تم سارا دن بیٹھ کر سوچتے ہو،
تم وہی بن جاتے ہو۔مطلب انسان اگر بہت بہادر یا بہت حسین بننا چاہتا ہے تو ان بڑی بڑی ہستیوں نے اس کا ایک نہایت آسان طریقہ دریافت کر لیا ہے کہ بیٹھ کر وہ بات سوچتے رہو اور اپنے آپ کو قائل کر لو۔ لیکن یہ کہنا جتنا آسان ہے کرنا اتنا ہی کٹھن کام ہے۔ قرآن میں باربار اللہ نے انسان کو نصیحت کی ہے کہ سوچو، اپنے ارد گرد دیکھو اور اس پر غور وفکر کرو۔ ہینری فورڈ نے فراری جیسی عظیم الشان گاڑی اسیمبل کرنے کے لیے جو ٹیم رکھی ہوئی ہے اس میں جس آدمی کی تنخواہ سب سے زیادہ ہے اس کا کام صرف اور صرف ٹیبل پر ٹانگیں دھر کر نئے نئے آئیڈئے سوچنا ہے بس۔ یورپ اور مغربی ممالک میں یونیورسٹیوں میں طلبہ کو سوچنے کی اہمیت کا اندازہ کروایا جاتا ہے۔ اور ان کے تھنک ٹینکس نے آج اس دنیا کے تمام بڑے بڑے بزنس سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہینری فورڈ یہ بھی بولتا ہے کہ اس بات کا خاص خیال رکھو کہ اپنے دماغ کے ساتھ ایک گارڈ بٹھا کر رکھو جویہ کام کرے کہ کسی قسم کی منفی یا غیر ضروری معلومات جو تمہیں ڈسٹرب کر سکتی ہو، وہ تمہاری عقل میں داخل ہی نہ ہو سکے۔ہم جن لوگوں ، کتابوں اور ٹی وی پروگراموں کے ساتھ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرتے ہیں، ان کو بھی ہر وقت چیک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ہمارے لیے کسی قسم کی منفی سوچ یا ذہنی اذیت کا باعث تو نہیں بنتے۔ اپنی اور اپنے بچوں کی ٹھیک تربیت کریں اور اپنی ذہنی نشونما کی اہمیت کو کبھی نظر انداز مت کریں۔
ہمیشہ جینیس وہ لوگ بنتے ہیں جن کا دماغ غلط اور بے جا چیزوں اور کاموں سے عاری ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ساری دنیا کسی کام کو ٹھیک کہتی ہے یا اہمیت دیتی ہے، منہ اٹھا کر ہر کسی کو اپنا راہنما نہ بناتے پھریں۔ اپنی سوچ اور عقل کو اچھی کتابوں اور تخلیقی پروگراموں سے مضبوط بنائیں اور صرف سچ اور فیکٹس کی بات کریں اور سنیں، پھر دیکھیں کہ آپ کی سوچ آپ کو کس مقام پر لے کر جاتی ہے۔