مغلیہ شاہزادہ علامہ اقبالؒ اور دکن کے مشہور علم دوست وزیراعظم مہاراجہ سرکشن پرشاد کے مابین بڑے پرخلوص مراسم تھے اور آپس میں خط و کتابت بھی رہتی تھی۔ ایک بار علامہ اقبالؒ حیدر آباد دکن تشریف لے گئے اور مہاراجہ کشن پرشاد کے ہاں قیام فرمایا۔ مہاراجہ نے علامہ اقبالؒ کی میزبانی اپنی حیثیت کے مطابق امیرانہ انداز پر کی۔ ایک دن ایک صاحب پرانی وضع کا انگرکھا، مغلئی پاجامہ اور دوپلی ٹوپی پہنے یکہ پر بیٹھ کر علامہ اقبالؒ سے ملنے کے لیے تشریف لائے۔
علیک سلیک کے بعد مصافحہ ہوا۔ دوران گفتگو پتہ چلا کہ یہ صاحب مغلیہ خاندان کے شہزادے ہیں اور برسوں سے علامہ اقبالؒ سے ملاقات کا اشتیاق رکھتے ہیں۔ انہوں نے علامہ اقبالؒ سے کہا کہ آپ تو حکومت دکن کے وزیراعظم کے محل میں رہائش پذیر ہیں، میں غریب آدمی ہوں، یہ ٹھاٹھ باٹھ کہاں سے لا سکتا ہوں۔ تاہم میری دلی تمنا یہ ہے کہ ایک وقت کا خاصہ میرے غریب خانے پر بھی تناول فرما لیں تو میرے لیے بڑی سعادت کا باعث ہوگا۔ آپ کے لیے اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کروں گا۔ علامہ اقبالؒ نے دعوت قبول کر لی اور وہ مقررہ تاریخ اور وقت پر مغل شاہزادے کے یہاں پہنچے۔ وہ صاحب اپنے مکان کے دروازے پر یکہ و تنہا علامہ اقبالؒ کے خیرمقدم کے لیے کھڑے تھے۔ ان کے خلوص و محبت کا یہ عالم تھا جیسے انہوں نے سچ مچ علامہ کی راہ میں آنکھیں بچھا دی ہیں۔ علامہ اقبالؒ سواری سے اترے تو مغل شہزادے نے علامہ اقبالؒ کا ہاتھ تھام لیا اور خاص انداز میں ذوق کا یہ مشہور شعر پڑھا: دیکھا دم نزع دل آرام کو عید ہوئی ذوق دلے شام کو علامہ اقبالؒ کی نگاہوں کے سامنے یہ شعر سن کر مغلیہ دور کی تاریخ مجسم ہو گئی۔ ان کا میزبان اس خاندان کا ایک غریب اور فلاکت زدہ شہزادہ تھا۔ علامہ اقبالؒ پر رقت طاری ہو گئی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔