تاریخ اسلام کے شہسوار حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دن قریش کی زبانی ایک بات سنی جس کی وجہ سے قریش کے لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے رفیق و صدیق محمد امینﷺ کو طعن و تشنیع کر رہے تھے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوراً آنحضورﷺ کے پاس پہنچے اور دو زانو ہو کر نرم انداز میں آپﷺ سے دریافت کرنے لگے اے محمدﷺ!
قریش مکہ جو کہہ رہے ہیں کہ آپﷺ نے ان کے معبودوں کو چھوڑ دیا ہے اور ان کو بیوقوف قرار دیا ہے کیا یہ بات حق اور درسست ہے؟ حضور اقدسﷺ نے فرمایا ہاں میں اللہ کا رسولﷺ اور اس کاپیغمبر ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث فرمایا کہ میں اس کے پیغام کو لوگوں تک پہنچاؤں اور میں تجھے بھی اللہ کی طرف حق کے ساتھ دعوت دیتا ہوں، خدا گواہ ہے کہ یہ بات حق ہے، اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میں تجھے وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دیتا ہوں یہ کہ تم غیر اللہ کی عبادت نہ کرو اور اسی کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو، چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہو گئے، انہوں نے اسلام قبول کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ اس لئے کہ وہ حضورﷺ کے سچے ہونے، آپﷺ کی حسن فطرت اور عمدہ اخلاق سے واقف تھے، جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی بات کو نہیں جھٹلایا تو بھلا اللہ تعالیٰ کی بات کو کیسے جھٹلاتے؟ نبی اکرمﷺ فرماتے تھے ’’میں نے جب کو بھی اسلام کی دعوت دی اس نے پس و پیش کیا اور کچھ نہ کچھ غور و فکر کیا لیکن جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی تو انہوں نے بلاتردد اور بلاتوقف اسلام کی دعوت کو قبول کیا۔