تلواروں اور نیزوں کی جھنکار میں ایک شہسوار و بہادر آدمی عمرو بن عبدود نے اپنے گھوڑے کی پشت سے چھلانگ لگائی، اسلحہ سے لیس اور ہتھیار بند ہو کر غرور و تکبر کے لہجہ میں اپنی تلوار کو ہلاتے ہوئے کہنے لگا: ہے کوئی مردِ میدان ہے، جو میرے مقابلہ پر آئے؟ کسی صحابیؓ نے اس کی للکار کا جواب نہیں دیا، سب پر خاموشی طاری ہو رہی تھی،
بھلا عمرو بن عبدود جیسے شہسوار کے مقابلہ کے لیے کون میدان میں آنے کی جرأت کر سکتا تھا، وہ تو اپنے ایک وار سے دسیوں کا کام تمام کرنے والا تھا۔ کوئی نہ بولا، ایک نوجوان کی آواز نے اس خاموشی کو توڑا جو اپنے عنفوانِ شباب میں پہنچا ہوا تھا اور ایمان اس کی رگ و ریشہ میں سرایت کر چکا تھا اور جس کا دل محبت نبویؐ سے لبریز تھا، وہ علیؓ تھے، انہوں نے عمرو بن عبدود کی للکار کا جواب دیا۔ حضرت علیؓ رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ! میں اس کا مقابلہ کروں گا۔ نبی کریمؐ نے ازراہ شفقت ان کی طرف دیکھا اور ان کی بھری جوانی کو دیکھتے ہوئے فرمایا: بیٹھ جاؤ، جانتے ہو وہ عمرو ہے۔ آپؓ بیٹھ گئے، لیکن عمرو نے دوبارہ مقابلہ کی دعوت دیتے ہوئے کہا: کوئی مردِ میدان ہے جو میرے سامنے آئے؟ کہاں ہے تمہاری جنت؟ جس کے متعلق تمہارا گمان ہے کہ جو تم میں سے قتل ہوتا ہے وہ اس جنت میں جاتا ہے، کیا تم میرے مقابلہ میں کوئی آدمی نہیں بھیجو گے؟ کیا تم جنت کے خواہش مند نہیں ہو؟ حضرت علیؓ دوبارہ اٹھے اور آنحضورؐ سے عرض کرنے لگے: یا رسول اللہؐ میں اس کے مقابلہ کے لیے نکلتا ہوں۔ نبی کریمؐ نے زجراً فرمایا: بیٹھ جاؤ، جانتے ہو وہ عمرو ہے۔ حضرت علیؓ بیٹھ گئے۔ لیکن عمرو کا استہزاء بڑھتا لیا اور وہ اکیلا معرکۂ کارزار میں اترانے لگا اور اپنی تیز تلوار کو لے کر دندنانے لگا اور یہ رجز پڑھنے لگا:
’’ان سب کو پکار پکار کر میراگلا بیٹھ گیا کہ ہے کوئی جو مقابلہ میں آئے، جب میں قرن المناجز مقام پر کھڑا اور ان کے بہادر بزدل ہو گئے، اور اسی لیے میں ہمیشہ عمدہ تلوار کی جانب لپکتا ہوں، شجاعت اور بہادری جوانمردوں میں ہوتی ہے اور جود و سخا اس کی بہترین خصلت ہے۔‘‘جب عمرو بن عبدود نے دلوں کو ہلا دینے والے کلمات کہے تو حضرت علیؓ پر بجلی بن کر گرے حضرت علیؓ کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا،
دوڑتے ہوئے بارگاہِ نبوت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہؐ! میں اس کے مقابلہ میں نکلتا ہوں، نبی کریمؐ نے (اس بار بھی) یہی فرمایا: بیٹھ جاؤ، جانتے ہو وہ عمرو ہے۔ حضرت علیؓ نے توکلاً علی اللہ کہا کہ خواہ وہ عمرو ہی ہو پھر یہ نوجوان، قدم جماتے ہوئے اٹھے اور گھوڑے پر سوار ہو کر عمرو بن بعدود کے قریب پہنچے اور یوں مترنم ہوئے۔’’جلدی نہ کرو، تیری پکار کا جواب دینے والا تیرے سامنے آ گیا ہے،
وہ بے بس نہیں ہے، پوری نیت اور بصیرت کے ساتھ آیا ہے، سچائی ہی ہر کامیاب ہونے والے کو نجات دیتی ہے، جونیزوں سے ایسی ضرب لگائے گا کہ سب یاد رکھیں گے۔‘‘ پھر حضرت علیؓ عمرو کے گھوڑے کے پاس پہنچے اور عمرو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ عمرو نے حضرت علیؓ کی طرف دیکھا اور دہشت زدہ ہو کر پوچھا: اے جوان! تو کون ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا: میں علیؓ بن ابی طالب ہوں،
عمرو نے کہا: اے بھتیجے! تمہارے بڑے کہاں ہیں جو عمر میں تجھ سے بڑے ہوں، میں تمہارا خون بہانا پسند نہیں کرتا، حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ اے عمرو! تو نے خدا سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر کوئی قریشی آدمی تجھے دو اچھی باتوں میں سے کسی ایک کی دعوت دے گا تو تو اس کو قبول کرے گا۔ عمرو نے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ہاں، میں نے کہا تھا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ لہٰذا میں تجھے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔
عمرو نے ہنستے ہوئے کہا: مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ پھر میں تجھے قتال کی دعوت دیتا ہوں، عمرو نے کہا: اے بھتیجے! کیوں؟ لات کی قسم! میں تجھے قتل کرنا پسند نہیں کرتا۔ حضرت علیؓ نے کہا لیکن واللہ! میں تجھے قتل کرنا پسند کرتا ہوں۔ عمرو کو غصہ آ گیا، اس کی رگیں غصہ سے پھول گئیں اور دانت پیسنے لگا۔ اس نے اپنی ہیبت اور عزت کا انتقام لینے کا ارادہ کیا،
چنانچہ اس نے نیام سے تلوار نکالی اور وہ آگ کے شعلہ کی طرح اس کے ہاتھ میں آئی اور اس قریشی نوجوان پر اپنا غیظ و غضب ڈھانے کے لیے آگے بڑھا، حضرت علیؓ نے اپنی ڈھال سے اس کے وار کا بچاؤ کیا، عمرو نے اپنی تلوار کے وار سے حضرت علیؓ کی ڈھال کو توڑ دیا اور تلوار اس میں پھنس گئی اس وار سے حضرت علیؓ کا سر زخمی ہو گیا۔ حضرت علیؓ نے فوراً اس کے کندھے پرتلوار ماری جس سے عمرو خون میں لت پت ہو کر گر پڑا۔
ہر طرف سے آوازیں بلند ہو گئیں: اللہ اکبر، اللہ اکبر، لافتی الاعلی، لافتی الا علی، یعنی علیؓ ہی جوان مرد ہیں۔ پھر حضرت علیؓ ظفر یاب ہو کر واپس لوٹے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے۔أعلی تقتحم الفوارس ھکذا۔۔عنی و عنھم أخروا أصحابی۔۔عبدالحجارۃ من سفاھۃ رأیہ ۔۔و عبدت رب محمد بصواب۔حضرت عمرؓ نے پوچھا: آپؓ نے اس کی زرہ کیوں نہیں اتار لی، اہل عرب کے پاس تو اس سے اعلیٰ کوئی زرہ نہیں ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا: مجھے حیا آئی کہ میں اپنے ابن عم کی زرہ اتاروں۔