حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک سوار آدمی پر نظر پڑی جو تیزی سے چلا آ رہا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے (دل میں) کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ ہمیں تلاش کرتا ہے۔ اتنے میں وہ آدمی آیا تو دیکھا کہ وہ رو رہا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، تمہیں کیا ہوا ہے؟ اگر مقروض ہو تو ہم تمہاری اعانت کر دیتے ہیں اور اگر کسی سے خوف زدہ ہو تو ہم پناہ دیئے دیتے ہیں۔
لیکن اگر تو کسی شخص کو قتل کر کے آیا ہے تو پھر تجھے بدلہ میں قتل کیا جائے گا اور اگر تو ان لوگوں کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتا تو ہم تجھے کسی اور علاقہ میں منتقل کر دیتے ہیں۔ اس آدمی نے کہا کہ میں نے شراب نوشی کی، میں بنوتمیم کا ایک فرد ہوں اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے مجھے کوڑے لگائے ہیں، میرا منہ کالا کر کے لوگوں میں پھرایا ہے اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اس آدمی کے ساتھ نہ کھائیں اور نہ بیٹھیں۔ میرے دل میں آیا کہ تین کاموں میں سے ایک کام کر گزروں یا تو تلوار کا انتظام کر کے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی خبر لوں اور ان کو اس تلوار سے ماروں یا آپ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہو جاؤں اور آپ مجھے شام بھیج دیں کیونکہ شام کے لوگ مجھے نہیں پہچانتے اور یا پھر میں دشمنوں کے پاس چلا جاؤں اور ان کے ساتھ شامل ہو کر کھاؤں اور پیوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے تمہارے اس عمل سے خوشی نہیں ہوئی، میں خود زمانہ جاہلیت میں حرمت سے قبل تممام لوگوں سے زیادہ پیتا تھا اور یہ زنا کی طرح نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو لکھا ’’اگر تم نے یہ حرکت دوبارہ کی تو میں تمہارا منہ ضرور کالا کروں گا اور لوگوں میں چکر لگاؤں گا، اگر تمہیں میری بات کا حق ہونا معلوم ہو یا ہے تو لوگوں کو حکم دو کہ وہ اس آدمی کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں اور اس کے ساتھ کھائیں پئیں۔ اگر یہ آدمی توبہ تائب ہو جائے تو اس کی شہادت کو قبول کرو‘‘۔پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس آدمی کو اٹھایا اور اس کو دوسو درہم دیئے۔